امریکہ کی اندھی تقلید

 
1965ءکی پاک بھارت جنگ کے دوران ایوب خان نے پاک فضائیہ کے سربراہ ائر مارشل اصغر خان کو یہ جاننے کیلئے کہ چین پاکستان کی کیا حمایت کر سکتا ہے، بیجنگ بھیجا وہاں پر اس وقت کے چینی وزیراعظم چو این لئہی نے ان سے ملاقات میں کہا کہ چین کے اس وقت انڈونیشیا میں جتنے بھی جنگی طیارے کھڑے ہیں وہ سب کے سب پاکستان کے ڈسپوزل پر ہیں ،پر ساتھ ہی انہوں نے ائر مارشل اصغر خان کو ایک معنی خیز مسکراہٹ کے بعد البتہ یہ بھی کہا کہ میں جانتا ہوں پاکستان کبھی بھی چین کی یہ آفر قبول نہیں کرے گا کیونکہ ایوب خان امریکہ کو کسی صورت بھی نالاں نہیں کرے گا امریکہ نے 1950 کی دہائی میں اس وقت کے سوویت یونین کے خلاف جو سرد جنگ لڑی پاکستان اس میں امریکہ کے ہراول دستے میں شامل تھا ،بغداد پیکٹ سیٹو اور سینٹو جیسے ملٹری معاہدے کیا تھے اس کے بعد 1970 ءکی دہائی اور پھر اسکے بعد افغانستان کے خلاف افغان مجاہدین کی سوویت یونین کے خلاف جنگ میں بھی پاکستان نے امریکہ کی اندھی تقلید کی کہنے کا مقصد یہ ہے کہ قیام پاکستان سے لے کر اب تک پاکستان کی اکثر حکومتیں امریکہ کی ڈگڈگی پر ناچتی چلی آئی ہیں یہ تو اب جا کے کہیں ہمارے ارباب بست و کشاد نے ہوش کے ناخن لئے ہیں اور روس کے ساتھ بھی اپنے تعلقات سنوارنے کی کوشش کی ہے اگر اس ملک کے ماضی کے حکمرانوں نے امریکہ اور سوویت یونین کے ساتھ پاکستان کے تعلقات میں بیلنس رکھا ہوتا اور امریکہ کی اندھی تقلید نہ کی ہوتی تو آج ہم کئی مشکلات کا شکار نہ ہوتے ان چند جملہ ہائے معترضہ کے بعد بعض دیگر امور کاتذکرہ بے جا نہ ہو گا۔معاشرہ کا کوئی بھی فرد کیوں نہ ہو اس کا تعلق بھلے کسی بھی طبقے سے کیوں نہ ہو اسے ٹیکس نیٹ میں لائے بغیر اتنا ریونیو اکھٹا نہیں کیا جا سکتا کہ جس سے ایک سوشل ویلفیئر سٹیٹ کے قیام کے تقاضے پورے کئے جا سکیں کسی نے بالکل درست کہا ہے کہ حصہ بقدر جثہ کے فارمولے کو مد نظر رکھتے ہوئے انکم اور ویلتھ ٹیکس لگائے بغیر ملک کی معشیت کو ٹھیک نہیں کیا جا سکتا آپ نے ضرور نوٹ کیا ہوگا کہ اس ملک کی اشرافیہ جن محل نما بنگلوں میں رہتی ہے وہ کئی کئی کنال پر محیط ہیں، ملک کے غریب انسانوں سے وہ دور کا بھی واسطہ نہیں رکھتے، پر الیکشن کی تقاریر میں عوام کے دکھوں پر ٹسوے بہاتے ہیں تا کہ ان کے ووٹوں سے ایوان اقتدار کا حصہ بن جائیں اسی لئے تو شاعر مشرق کہہ گئے ہیں کہ جمہوریت وہ طرز حکومت ہے کہ جس میں بندوں کو گنا کرتے ہیں تولا نہیں کرتے،خدا لگتی یہ ہے کہ جب تک موجودہ نظام حکومت میں انقلابی تبدیلیاں نہیں لائی جائیں گی اس ملک میں صحیح معنوں میںمعاشی انصاف کا حصول نا ممکن ہے۔ بعض ماہرین معیشت یہ تجویز پیش کرتے ہیں کہ ہر شخص پر standard of living taxلگنا چاہیے اگر وہ سرمایہ دارانہ طرز زندگی گزارتاہے توبے شک گزارے پر پھر اس پر بھاری بھر کم ٹیکس بھی لگے اور اس کےلئے جن چیزوں کو دیکھناہو گا وہ یہ ہیں اس کے گھر کا سائز کتنا ہے اس میں کس کوالٹی کا فرنیچر اور الیکٹرونک سامان پڑا ہے اس کے گھر کے پورج میں کتنی گاڑیاں کھڑی ہیں ،ہر سال وہ کتنی مرتبہ بیرون ملک چکر لگاتا ہے اس کے بچے کس کس سکول اور کالج میں زیر تعلیم ہیں اور ہر ماہ ان کی فیس پر کتنے پیسے خرچ کئے جا رہے ہیں،اگرصرف سٹنڈرڈ آف لوننگ ٹیکس ہی دیانتداری سے لگا دیا جائے تو پھر کسی اور ٹیکس لگانے کی شاید ضرورت ہی نہ پڑے‘ اور اب دو چار باتیں ذرا سوشل میڈیا کے بارے میں ہو جائیں ، آزادی رائے اچھی چیز ہے پر اس کا مطلب یہ نہیں کہ ابلاغ عامہ کے ذریعے وہ وڈیوز اور فلمیں بھی نیٹ کے ذریعے دکھائی جانے لگیں جن کی ہمارے معاشرے میں کوئی جگہ نہیں، اسی لئے تو سنسر بورڈ جیسے ادارے وجود میں آ ئے تھے اور کسی زمانے میں کوئی فیچر فلم سینما ہاﺅس میں بغیر سنسر بورڈ کے سرٹیفیکیٹ کے نمائش کے لئے نہیں پیش کی جا سکتی تھی ،آج سوشل میڈیا سنسر بورڈ کی قید سے بالکل آزاد ہے اس نے ہمارینئی نسل کا مستقبل تاریک کردیا ہے ۔