نئی اتھار ٹی کا قیام

 
تازہ خبر آئی ہے کہ ہوائی جہا زوں کی آمدو رفت میں سہو لت کےلئے قائم کی گئی سول ایوی ایشن اتھار ٹی کو دو حصو ں میں تقسیم کیا گیا ہے ملک کے تمام کمر شل ائر پورٹ نو تشکیل شدہ پا کستان ائر پورٹ اتھارٹی کا حصہ ہونگے اس طرح ائر ٹرانسپورٹ ، ریگو لیٹری شعبہ جا ت ، فلائٹ سٹینڈرڈ اور لائسنسنگ بدستور سول ایوی ایشن اتھارٹی کے پاس رہینگے تنظیم نو اور دونوں کی علیحد گی پر ما لی اخراجات کا اضا فی تخمینہ 20ارب روپے لگا یا گیا ہے اس منصو بے کی منظوری شہباز شریف کی کا بینہ نے دی تھی اور اسمبلی میں اس حوالے سے ایک بل بھی منظور ہوا تھا اس بل کے تحت نگران حکومت نے نئی اتھارٹی قائم کی ہے ،بل میں کہا گیا ہے کہ نئی اتھارٹی کے قیا م سے کمر شل ہوائی اڈوں کے انتظا م اور انصرام و اہتمام میں مدد ملے گی ، سول ایوی ایشن کے معا ملا ت درست ہونگے یہ سوال کسی نے نہیں پو چھا کہ اب تک ہوائی اڈوں کا انتظام ٹھیک کرنے سے کسی نے روکا تھا اور سول ایوی ایشن کے معا ملا ت میں گڑ بڑ کس نے پیدا کی تھی ؟ خیر ، اب ایسے سوالات کا موقع بھی نہیں فائدہ بھی نہیں ، خو شی کی بات یہ ہے کہ نئی اتھارٹی کے قیا م کے ساتھ ہی بےروز گار نو جوانوں کےلئے 1200نئی اسامیاں پیدا کی جا ئینگی ان ا سا میوں کی وجہ سے غر بت میں کمی آئیگی غریب عوام پر مہنگائی کا بو جھ کم ہو گا اگر غور کیا جا ئے تو اب تک پا کستان سٹیل ، واپڈا ، ریلوے اور پی آئی اے کو دیوالیہ کرنے والی سوچ یہی ہے کہ بےروزگار وں کو روز گار دو، جہاں 1500ملا زمین کی گنجا ئش ہے وہاں 12ہزار بےروز گاروں کی بھر تی کا انتظام کرو، ہر ایم این اے کو ملا زمتوں کا کوٹہ دیدو نئی اتھارٹی کے قیا م میں یہی سوچ کا ر فرما ہے اس لئے سٹیٹ بینک کے سابق گور نر ڈاکٹر عشرت حسین نے پا کستان کی معا شی صورتحا ل پر اپنی انگریزی کتاب کا نا م ”نظم و نسق سے عاری نظم و نسق “ (Governing the Ungovernable)رکھا ہے ، ملک کے سابق سیکرٹری داخلہ روئیداد خا ن نے ملکی سیا ست پر اپنی جا مع کتاب کا نا م ” بکھرا ہوا خواب“ (A dream gone Sour) رکھا ہے یہ ان لو گوں کے سال ہا سال کے تجر بات کا نچوڑ ہے ، وزارت ثقا فت کے سابق جائنٹ سیکرٹری اور لو ک ورثہ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر عکسی مفتی نے اپنی کتاب ” کا غذ کا گھوڑا “ 2010ءمیں شائع کی اس میں لکھا ہے کہ ہمارے ملک میں نئے ادارے بڑے بلند بانگ دعوﺅں کے ساتھ قائم کئے جا تے ہیں لیکن چند سال بعد پتہ لگتا ہے کہ ان اداروں میں تنخوا ہوں اور بلوں کی ادائیگی کے سوا کوئی کا م نہیں ہوتا 2020ءمیں آئی ایم ایف کی معائنہ ٹیم نے جو رپورٹ تیار کی تھی اُس میں پا کستان کی حکومت سے ملک پر قرضوں کا بو جھ کم کرنے اور وزارت خزانہ کو آئی ایم ایف کی قسطیں ادا کرنے کے قابل بنا نے کےلئے وفاق کی سطح پر 7وزارتوں ، 13ڈویژنوں اور 28غیر ضروری دفاتر کو بند کر نے کی سفارش کی گئی تھی ستم ظریفی یہ ہے کہ اس کے بعد وزیروں کی تعداد 92ہو گئی ، ڈویژ نوں اور دفا تر کی تعداد میں سال بہ سال اضا فہ ہو تا رہا گو یا ہم قرض لینے والے نہیں قرض دینے والے بن گئے ہیں یا دش بخیرایک محکمے کو تقسیم کر کے دوسرا محکمہ تشکیل دیا گیا ‘لیکن ہم سوچتے نہیں وہی چال بے ڈھنگی کہ جو تھی اب بھی ہے ۔