دفتر خارجہ کا بیان

 
 دفتر خارجہ کے اس بیان پر کہ پاکستان اور امریکہ میں متعدد معاملات پر مشاورت جاری ہے ‘شاذہی کسی کو اعتراض ہو کہ پاکستان کو دو طرفہ بنیادوں پر امریکہ سے ہر قسم کے تعلقات رکھنے ضروری ہیں پر اس چیز کا ازحد خیال رکھا جائے کہ امریکہ کے ہر مطالبے پر عمل کرنے سے پہلے اس پر قومی اسمبلی میں بحث و مباحث کی جائے حکومت کو امریکہ کا ایسا کوئی مطالبہ نہیں ماننا چاہئے کہ جس سے پاکستان کے چین یاروس کے ساتھ تعلقات خراب ہونے کارتی بھر بھی خدشہ ہو یہ بات تو طے ہے کہ امریکہ چین اور روس کا ازلی دشمن ہے اور وہ کسی طور یہ نہیں چاہتا کہ پاکستان روس اور چین کے ساتھ قریبی روابط رکھے اگر وہ پاکستان کی کسی بھی شعبہ زندگی میں مالی امداد کرے گا تو وہ اس کے بدلے پاکستان کو ایسے اقدامات اٹھانے پر مجبور کر سکتا ہے کہ جن سے پاکستان کے روس اور چین سے تعلقات خراب ہو جائیں کیونکہ ماضی میں ایک سے زیادہ مرتبہ ایسا ہواہے سانپ کا ڈسا رسی سے بھی ڈرتا ہے اس لئے ہماری وزارت خارجہ کو امریکہ کے ہر مطالبے پر پھونک پھونک کے قدم رکھنا ہو گا پبلک میں عام تاثر یہ ہے کہ امریکہ وطن عزیز کے ریاستی اداروں میں مختلف طریقوں سے اپنے ہم خیال اہلکار پیدا کر لیتا ہے جو پھر اس کی ڈگڈگی پر ناچتے رہتے ہیں پولیس افسران و اہلکاروں کے سوشل میڈیا کے استعمال پر پابندی کے حکم پر ہمیں یاد آیا کہ حاضر سروس سرکاری ملازمین پر تو ویسے بھی قانونی پابندی ہے کہ وہ اپنی سرکاری نوکری سے ریٹائرمنٹ کے بعد بھی دو سال تک کسی بھی مسئلے پر اپنے خیالات کا زبانی یا تحریری اظہار نہیں کر سکتے کجا کہ وہ سوشل میڈیا کے ذریعے ایسا کریں پارلیمانی جمہوریت کسی بھی ملک میں اس وقت جڑیں پکڑتی ہے کہ جب اس میں شخصیات کے بجائے روایات کے پنپنے پر زور دیا جائے دکھ کا مقام یہ ہے کہ وطن عزیز میں پارلیمانی روایات کم اور شخصیت سازی پر ایک لمبے عرصے سے زور دیا جا رہا ہے آج بھی کم و بیش یہی صورت حال ہے ہر سیاسی پارٹی ایک ہی شخصیت کے آگے پیچھے گھومتی ہے نام تو لیا جاتاہے پارلیمانی جمہوریت کا پر در حقیقت پارٹی کا نظام یا تو بادشاہت والاہے اور یا پھر صدارتی سسٹم والا کہ جس میں فرد واحد یعنی پارٹی کے چیف کا ہی حکم چلتا ہے۔