لائبریری کلچر عنقا ہو چکا 

کتاب سے بہتر انسان کا کوئی دوست ہو ہی نہیں سکتا مانچسٹر اور لندن میں ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے کہ کسی بھی علاقے میں چلے جائیں ہر فرلانگ کے بعد آپ کو ایک لائبریری ضرور نظر آئے گی۔ وہاں کی لائبریریوں کا خاصا یہ ہے کہ وہ ہر مضمون کی کتابوں سے لیس ہوتی ہیں ‘انگلستان نے اپنے ھاں تعلیم کا نظام ہی ایسے بنا رکھا ہے کہ امتحان کے دوران پرچے حل کرنے کے واسطے طلباءکو لا محالہ از خود ایک نہیں بلکہ بسااوقات تو درجنوں کتابوں کے مطالعے کے بعد ان سوالات کے جوابات ڈھونڈنے پڑتے ہیں‘ جو ان سے امتحان کے پرچوں میں پوچھے جاتے ہیں اس لئے وہاں کے طلباءکو خواہ مخواہ لائبریریوں کا سہارا لینا پڑتا ہے اور اس طرح ان کو کتابیں پڑھنے کی عادت پڑ جاتی ہے۔ ایک مشہور مقولہ ہے کہ ایک اونس لکھنے کے لئے ایک ٹن پڑھنا پڑتا ہے اپنا خون جلانا پڑتا ہے کتابوں کے مطالعے سے انسان کے ذہن کے بند دریچے کھلتے ہیں ۔وطن عزیز میں ایک زمانہ تھا کہ ہر کالج میں لائبریری ہوا کرتی تھی جو ہر مضمون پر کافی کتابوں سے لیس ہوا کرتی تھی‘ اسی طرح ہر شہر میں میونسپل کمیٹی یا میونسپل کارپوریشن کی بھی اپنی ایک لائبریری ہوتی تھی اور تو اور شہر کے ہر محلے میں میونسپل اداروں نے ریڈنگ رومز بھی قائم کر رکھے تھے۔ ایک عرصے سے اب نہ کہیں اس قسم کی لائبریریاں نظر آ تی ہیں اور نہ ہی ریڈنگ رومز ۔ویسے بھی اب اس ملک میں کتب بینی کا کلچر رو بہ زوال ہے ‘ اب چونکہ کتابوں کا ذکر چل ہی نکلا ہے تو کیوں ناں چند ایسی نادر کتابوں کا ہلکا سا ذکر ہو جائے کہ جو ہماری دانست میں ہر طالب علم کو پڑھنی ضروری ہیں ایڈورڈ گبن نے the decline and fall of Roman Empire کے نام تلے ایک کتاب لکھی ہے اگر اس کا مطالعہ تاریخ کے طالب علم کے لئے ضروری ہے تو دوسری طرف ہر انگریزی زبان کے لکھاری کے لئے بھی اس کا باریک بینی سے مطالعہ لازمی ہے ۔برطانیہ کے ایک سابق وزیراعظم سر ونسٹن چرچل جو خود بھی انگریزی زبان کے ایک نہایت ہی اچھے لکھاری بھی تھے اور جن کو انگریزی زبان میں ہسٹری آف انگلش سپیکنگ نیشنز کی تصنیف پر بہترین لٹریچر تخلیق کرنے پر نوبل پرائز ملا تھا ۔نے اپنی ایک کتاب میں لکھا ہے کہ اگر کوئی لکھاری عمدہ انگریزی لکھنے کا ہنر سیکھنا چاہتا ہو تو ایڈورڈ گبن کی مندرجہ بالا کتاب ضرور پڑھے ۔ سید سبط حسن کی درج ذیل کتابیں بھی پڑھنے لکھنے کے شوقین افراد کی کتابوں کی الماری میں ضرور ہونی چاہئیں جن سے وہ مستفید ہو سکتے ہیں‘ ماضی کے مزار‘ موسی سے مارکس تکThe battle of ideasنراد چودھری کی لکھی ہوئی کتاب Autobiography of an unknown Indian بھی اس لحاظ سے پڑھنے کی کتاب ہے کہ اسے پڑھ کر ونسٹن چرچل نے کہا تھا کہ اتنی اچھی انگریزی تو میں بھی نہیں لکھ سکتا کہ جتنی اچھی انگریزی نراد چودھری نے لکھی ہے کہ جو بنگالی ہے اور جس کی مادری زبان انگریزی نہیں ہے بلکہ بنگلہ ہے ‘قارئین کی معلومات کے لئے عرض ہے کہ نراد چودھری سابقہ مشرقی پاکستان میں چٹا گانگ میں پیدا ہوئے وہ آل انڈیا ریڈیو کے لئے بھی بطور براڈکاسٹر کام کرتے رہے اور freelanceصحافی بھی تھے 55برس کی عمر میں جب انہوں نے مندرجہ بالا کتاب لکھی تو اس کی حد درجہ پذیرائی ہوئی اور ان کی انگلستان میں شہرت کی وجہ بنی ان کو پھر بی بی سی ریڈیو والوں نے اپنے خرچ پر لندن بھی بلوایا اور ان کی آواز میں کئی ریڈیو پروگرام بھی براڈ کاسٹ کئے۔