پاکستان میں چینی سفیر کے اس بیان سے پتہ چلتا ہے کہ چین پاکستان کا کس قدر ہمدرد ہے کہ جس میں انہوں نے امریکہ سے پھر مطالبہ کیا ہے کہ وہ پاکستان کی حقیقی اور عملی مدد کرے۔ انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ سیلاب کے بعد چین نے اب تک پاکستان کو نو کروڑ ڈالرز کی امداد دی ہے انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ پاک چین تعاون پر تنقید کرنے والے ملک مشکل کی گھڑی میں پاکستان کی عملی مدد کریں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پاکستان کو سیلاب کے بعد ملنے والی رقوم میں چین کی طرف سے ملنے والی رقم سب سے بڑی رقم ہے۔ چین نے امریکہ کو یہ مشورہ بھی دیا ہے کہ وہ پاک چین دوستی پر بلا وجہ تنقید کرنے کے بجائے پاکستان کی حقیقی معنوں میں امداد کرے۔ اس بات میں تو کوئی شک نہیں کہ اگر ہم اپنی تاریخ پر ایک طاہرانہ نظر ڈالیں تو یہ بات تو ظاہرہو جاتی ہے کہ ہمارے معدودے چند دوست ممالک میں چین بھی شامل ہے کہ جس نے بغیر کسی لالچ یا طمع کے پاکستان کی ہر مشکل کی گھڑی میں مدد کی ہے۔اب کچھ تذکرہ دیگر امور کا ہوجائے، حقیقت تو یہ ہے کہ انسانوںنے اپنے ہاتھوں زمین کے ماحول کو زندگی کیلئے نامناسب بنانے میں اہم کردار ادا کیا ہے ۔ یہ جو موسمیاتی تبدیلیوں کی لہر چل پڑی ہے اور یہ جو سیلابوں اور طوفانوں کا سلسلہ شروع ہوا ہے یہ سب ماحولیاتی آلودگی اور حدت کے باعث ہورہا ہے جس کے سراسر ذمہ دار وہ ممالک ہیں جنہوںنے صنعتی ترقی کیلئے پوری دنیا کے ماحول کو داﺅ پر لگایا۔اب تو آلودگی کا سلسلہ سمندروں تک دراز ہوگیا ہے اور ایک رپورٹ کے مطابقبہت زیادہ شور نہ صرف زمین پر بسنے والے جانداروں کےلئے باعث تکلیف ہوتا ہے بلکہ یہ آبی حیات کے لیے بھی جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے۔ انسان سمندروں کے اندر کے شور کو کم کر سکتا ہے، جو ماحول کے لیے بھی فائدہ مند ہو گا۔پانی کے اندر بسنے والے جاندار صرف آوازوں کی مدد سے ابلاغ کا کام لیتے ہیں، یا یوں کہہ لیجیے کہ گفتگو کرتے ہیں۔ سمندر کے پانیوں میں رہنے والے جاندار مخصوص آوازوں کو بطور نیویگیٹر استعمال کرتے ہیں۔انسانی ترقی کی وجہ سے سمندروں میں آلودگی تو پیدا ہو ہی رہی ہے لیکن ساتھ ہی پانی کے اندر کا ایک مخصوص صوتی اثر (ساﺅنڈ سسٹم)بھی متاثر ہو رہا ہے۔سمندری حیاتیات کے ماہرین کے مطابقپانی کے اندر غیر ضروری آوازوں کی آمیزش سے جو شور پیدا ہوتا ہے، وہ آبی حیات کے لئے قابل فہم نہیں ہوتا۔بحری جہازوں سے پیدا ہونے والا شور سمندری خاموشی کو نقصان پہنچانے کا ایک بڑا ذریعہ قرار دیا جاتا ہے۔ عالمی تجارت کا نوے فیصد سامان بحرتی راستوں سے ہی ٹرانسپورٹ کیا جاتا ہے۔بالخصوص شپنگ روٹس پر ان بحری جہازوں کا شور بہت زیادہ ہو چکا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق گزشتہ پچاس برسوں کے دوران اس شور میں بتیس گنا اضافہ ہوا ہے۔بحری جہازوں کو ماحول دوست بنانے اور ان سے پیدا ہونے والے شور کو کم کرنے کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اس صوتی آلودگی کو کم کیا جا سکتا ہے۔بالخصوص کارگو بحری جہازوں کو جدیدٹیکنالوجی سے آراستہ کرتے ہوئے ان مشکلات پر قابو پایا جا سکتا ہے۔یہ تو واضح ہے کہ انسان جتنا کم مداخلت کرے گا، ایکو سسٹم اتنا ہی کم متاثر ہو گا۔ یہ سب شور انسان کا ہی پیدا کردہ ہے۔ونڈ ٹربائین کا شور بھی سمندری حیات کے لیے انتہائی خطرناک ہوتا ہے۔ تاہم تحفظ ماحول کی خاطر توانائی کے متبادل ذرائع میں یہ ٹیکنالوجی کلیدی قرار دی جاتی ہے۔ اسی مقصد کے لیے سن دو ہزار پچاس تک دنیا بھر میں ایسے ڈیرھ لاکھ ونڈ ٹربائین لگانے کا منصوبہ بنایا گیا ہے۔یاد رہے کہ ایک ونڈ ٹربائین کا پانی کے اندر شور ویسا ہی ہوتا ہے۔
، جیسا کہ کسی مسافر طیارے کا لینڈنگ یا اڑتے وقت ہوتا ہے۔ خود سوچ لیجیے کہ یہ شور آبی حیات کو کیا کیا نقصانات پہنچا سکتا ہے۔ کارگو بحری جہاز ہوں یا قدرتی وسائل کی تلاش میں نکلے ہوئے جدید ٹیکنالوجی سے آراستہ بحری بیڑے۔ یہ سبھی سمندری ماحول کے لئے نقصان دہ ہیں۔ تیل اور گیس کی ڈرلنگ کی وجہ سے سمندروں میں ہونے والا شور بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچاتا ہے۔
اس سے نہ صرف حیاتیاتی تنوع متاثر ہو رہی ہے بلکہ عالمی درجہ حرارت بھی بڑھ رہا ہے۔ اس عمل کو موسمیاتی تبدیلیوں کی ایک اہم وجہ بھی قرار دیا جاتا ہے۔