آج میں ان بچوں‘ لڑکوں‘ لڑکیوں کی بات کرنا چاہتی ہوں جن کو علم حاصل کرنے کی بجائے مشقت اور محنت میں جھونک دیا جاتا ہے‘ بلاشبہ اس میں سب سے بڑے قصوروار ماں باپ ہیں‘ ماں باپ کہیں گے غربت ہے‘ غربت بول نہیں سکتی ورنہ ضرور کہتی‘ معاشرہ قصوروار ہے جو ایسے معصوم فرشتوں کو ہاتھوں ہاتھ لیتا ہے اور پھر ان کے حال اور مستقبل سے جو سلوک کیا جاتا ہے وہ ناقابل تردید ہوتا ہے‘ آئیے ایک بچی کی کہانی آپ کو سناتی ہوں‘ میں ایک شادی کی تقریب میں تھی‘ کھانا لگ چکا تھا ‘ وہ امیر خاندان جو اس بچی کے آقا تھے اپنی اپنی پلیٹ میں کھانا لے کر مصروف ہو گئے‘ اب وہ معصوم بچی ان سب کےلئے ویٹر کے فرائض سرانجام دینے لگی‘ کسی کو سلاد چاہئے‘ کسی کو تھوڑے چاول اور چاہئے‘ کسی کو کوفتہ چاہئے اور کسی کو کولڈ ڈرنک کی بوتل چاہئے۔ بہرحال وہ کھانے کی وسیع و عریض میز کے بیچ میں فٹ بال بن چکی تھی جبکہ تمام بارات کھانا کھا رہی تھی۔ کیا اس بچی کو بھوک نہیں لگی ہوگی‘ کیا اتنا اچھا کھانا دیکھ کر اس کی خوشبو سونگھ کر اس کا دل کھانے کو نہیں چاہ رہا ہو گا‘ کسی کو کوئی پرواہ نہیں تھی‘ ہمارے ہاں بے حسی کی انتہا ہے‘ کھانے کو وہ چل رہے ہیں جو صبح و شام بس کھانا ہی کھاتے ہیں۔ میں یہ سب نہیں دیکھ سکتی تھی‘
میری پوزیشن ایسی نہ تھی کہ میں اس بچی کو ہاتھ سے پکڑ کر اپنے ساتھ بٹھا لیتی کھانا کھلا دیتی یا ان کو اس ظلم سے روک دیتی بس میں اتنا کر سکتی تھی کہ کھانا چھوڑ کر ہوٹل سے باہر آ جاتی اور میں نے ایسا ہی کیا تھا‘ میں ظلم کا سوچ بھی نہیں سکتی کجا کہ ہوتے ہوتے دیکھوں۔ کیا ہم سب قابل گناہ ہیں‘ کیا ہم سب قابل جرم ہیں‘ ہم اپنی آنکھوں سے ان غریب اور نادار بچوں کو لوگوں کے گھروں میں جھاڑو پونچا‘ برتن‘ صفائی کرتے ہوئے دیکھتے ہیں‘ ان کے بچوں کو سارا دن کھلاتے ہوئے دیکھتے ہیں‘ وہ جن کی عمر خود کھیل کود کی ہے وہ نوکر اور آیا بن چکے ہیں‘ وہ جو گاڑیاں صاف کرتے رہتے ہیں‘ وہ بچے جو بازاروں میں صرف لفافے اور تھیلے بیچتے رہتے ہیں‘ وہ بچے جو بظاہر معزز لوگوں کے جوتے پالش کرتے رہتے ہیں‘ وہ جو ریڑھیاں چلاتے ہیں ان کے بے جا ظلم و ستم کا
نشانہ بنتے ہیں‘ خود پھٹے پرانے کپڑے پہن کر سکول جانے والے بچوں کو حسرت سے دیکھتے ہیں‘ سکول کے باہر چھابڑی لگا کر اندر سے سکول کی دی جانے والی تعلیم کو کانوں سے سن رہے ہوتے ہیں‘ جو سردیوں میں سوئیٹر نہ ہونے سے ٹھٹھرتے ہیں اور گرمیوں میں پنکھے کی ہوا ان کو میسر نہیں ہوتی‘ ان کے والدین ان کے گنہگار ہیں‘ معاشرہ ان کا گنہگار ہے یا حکومت وقت‘ ہمارا قانون‘ ہماری زندگی کا سٹائل ان کا گنہگار ہے۔ وہ ماں باپ جو اپنے سال بھر کی عیاشی کےلئے اور ان بچوں کو روٹی مہیا نہ کر سکنے کے باعث امیر خاندانوں پر پورے سال کے معاوضے پر ان معصوموں کو بیچ دیتے ہیں اور پھر سارا سال یہ بھی نہیں پوچھتے کہ ان کا حال کیسا ہے۔ ایک چھٹی ہفتے میں تو ہر ایک کا حق ہے‘ ماں کو دیکھنا‘ باپ کے گلے لگنا تو ہر بچے کا حق ہے وہ والدین کتنے بد نصیب ہیں جو بچوں سے ان کا بچپن چھین لیتے ہیں اور ان کو معصوم عمر میں مزدور بنا دیتے ہیں۔ وہ ماں کیا ہو گئی جو خود بچے کو مزدور بنا دیتی ہے اور پھر آفرین ہے ہم پر جو ان بچوں کو خریدتے ہیں۔ وہ معصوم جو انتہائی ذہین ہوتے ہیں ان سے ان کا
سکول‘ ان کی تعلیم‘ ان کا بچپن چھین کر ہم ان سے وہ کام لیتے ہیں جو شاید ہم خود بھی کرتے ہوئے گھبراتے ہیں۔ ہم اپنے آپ کو مہذب‘ تعلیم یافتہ اور معاشرے کے راہبر کہتے ہیں لیکن ان معصوموں کی فلاح کے لئے ہم نے آنکھیں بند کر رکھی ہیں۔ ہمیں اللہ کے پاس کیا منہ لے کر جانا ہے اورپھر حکومتیں اور ان کے قوانین کیا ان کے علم میں نہیں کہ جو بچے گھروں میں چاکریاں کر رہے ہیں‘ جو ورکشاپوں میں‘ اینٹوں کے بھٹوں پر ریڑھیاں لگائے ہوئے‘ چھابڑیاں لگائے‘ سکولوں سے غائب یہ بچے کون ہیں‘ کوڑے سے کھانا چننے والے‘ اتوار بازاروں کے تھڑوں پر پیاز اور گندے آلو ٹماٹر جمع کرنے والے یہ معصوم بچے کیا ہمارے بچے نہیں ہیں‘ پھر ہم پنج سالہ‘ دس سالہ منصوبے بنا لیں‘ پھر ہم موٹر وے بنا لیں۔‘ میٹرو بنا لیں‘ تیز رفتار بسیں بنا لیں ہم کبھی بھی وہاں نہیں پہنچ سکتے جن کے لوگ اپنے ہاتھوں سے اپنے کام کرتے ہیں‘ اپنے بچوں کو سکولوں میں بھیجتے ہیں‘ جہاں کے قانون سخت ہیں‘ جہاں انسان واقعی انسان ہوتا ہے جہاں بچوں کے اتنے حقوق ہیں کہ بعض اوقات تو ماں باپ بھی ان کو تھپڑ نہیں مار سکتا۔ کاش ہم باضمیر انسان ہو جائیں‘ کیا ایسا ہو سکتا ہے‘ کچھ ناممکن تو کبھی نہیں ہوتا‘اگر ضمیر زندہ ہو۔