ذرائع ابلا غ میں با خبر ذرائع کے حوالے سے خبریں آرہی ہیں کہ حکومت ملک میں انتظا می اصلا حا ت کی نئی تجویز پر غور کررہی ہے اس تجویز کے بے شمار پہلوؤں پر قیا س آرائیاں ہور ہی ہیں جن میں اہم امور کو زیر بحث لا یا جا رہا ہے یہ ہوائی جس نے بھی اڑائی ہے اس کے مثبت نتائج برآمد ہوں گے ان میں تین امور کو خصوصی اہمیت حا صل ہے یہ بات کہی جا رہی ہے کہ صوبوں کی تعداد میں اضا فہ کر کے ملک کے بیس صوبے بنائے جائیں گے، یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ صو بائی اسمبلیوں کی جگہ ضلع کونسلیں قائم کی جائیں گی صوبہ کا انتظا میہ سربراہ منتخب گورنر ہو گا اس کی کوئی کا بینہ نہیں ہو گی، یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ انتظا می اور ما لی اختیارات ضلع، تحصیل اور مقا می کونسلوں کو منتقل کئے جائیں گے، ایک اور بات گردش کر رہی ہے کہ قومی اسمبلی اور سینیٹ کے ممبروں کو ذاتی مراعات کے سوا کوئی دوسرا فنڈ نہیں ملے گا اگر اس طرح کی دور رس اصلاحات کا بیڑا اٹھا یا
گیا تو یہ ملک اور قوم کے حق میں بہت بہتر ہوگا۔ ہمارے پڑوس میں افغانستان کے ستائیس صوبے ہیں کوئی صوبائی اسمبلی اور کا بینہ نہیں‘ ایران میں ایسا ہی انتظامی ڈھا نچہ قائم ہے اور کامیاب ہے ہمارے مو جودہ صو بوں کی تاریخ متحدہ ہندوستان میں برطانوی حکومت کے دور سے شروع ہوتی ہے آزادی کے بعد اس انتظا می ڈھا نچے میں اصلا حا ت کی کوئی کوشش نہیں کی گئی 1988ء میں ایک تجویز آئی تھی کہ ملک میں نئے انتظامی یو نٹ قائم کر کے ایک عمرانی معا ہدہ
سامنے لا یا جا ئے گا مگر ایسا نہیں ہوا حا لیہ دنوں میں انتظا می اصلا حا ت کی جو نئی تجویز آئی ہے اس کی رو سے بلو چستان میں تین صو بے بنیں گے، سندھ میں پانچ صوبے اور خیبرپختونخوا میں چار صو بے ہوں گے، پنجاب کے انتظا می یو نٹوں کی تعداد آٹھ ہو گی نئے صوبوں کی تشکیل میں تاریخی حقائق، ثقا فتی پس منظر اور انتظامی سہو لت کو پیش نظر رکھا جا ئے گا برٹش انڈیا میں جو آزاد اور خود مختار ریا ستیں تھیں ان کی حدود کو بھی مد نظر رکھا جائے گا اگر اس تجویز کو سنجیدگی کے ساتھ آگے بڑھا یا گیا تو آنے والے سالوں میں ملکی معیشت، سیاست اور معاشرت پر اس کے مثبت اثرات مرتب ہوں گے۔ امریکہ کے 52 صوبے ہیں کسی بھی صوبے میں اسمبلی اور کا بینہ نہیں ہے وہاں کانگریس کے ممبروں کو ذاتی مراعات کے
سوا کوئی فنڈ نہیں ملتا، انتظامی اور ترقیاتی اختیارات مقا می کونسلوں کے پا س ہیں‘ چین، روس،جنوبی کوریا اور جا پان میں صوبائی اسمبلی اور کا بینہ نہیں ہوتی ان ملکوں کی معیشت کو اس کا کوئی نقصان نہیں ہوا افغانستان کا رقبہ پا کستان سے کم ہے اس کی آبادی بھی پا کستان کی آبادی کے آٹھویں حصے کے برابر ہے مگر اس ملک میں صوبوں کی تعداد پا کستان کے مقا بلے میں سات گنا زیادہ ہے وطن عزیز کے اندر انتظا می اصلاحات کی نئی تجویز اس لئے بھی قابل غور ہے کہ ہمارا پرانا انتظا می ڈھا نچہ نا کا می سے دو چار ہوا ہے شہروں سے لے کر دیہات تک احساس محرومی بڑھ رہا ہے، اور ما یو سی پھیل رہی ہے کوئی منتخب حکومت اس طرح کے دور رس اقدامات نہیں اٹھا ئے گی اس لئے مو جودہ حکومت ہی اس قسم کے اصلاحات لا سکتی ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ ”اب نہیں تو کب“ کے اصول پر عمل کر کے اس تجویز کو عملی جا مہ پہنا یا جائے۔