ایک خبر اخبارات میں لگی ہے کہ عالمی ما لیاتی ادارے کی تازہ ترین رپورٹ کی رو سے رواں مالی سال کے دوران پا کستان کے قرضوں میں 118 کھرب کا اضا فہ ہو کر قرضوں کی کل ما لیت 820 کھرب روپے ہو جائیگی 30 جون 2024ءتک پا کستان کا ما لیا تی خسارہ 82ارب روپے ہو جا ئیگا جو مجمو عی قومی پیداوار کے 78فیصد کے برا بر ہوگا مر زا غا لب نے اپنی ما لی حا لت کا ذکر کر تے ہوئے کہا تھا قرض کی پیتے تھے مئے اور کہتے تھے ہاں رنگ لائے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن ‘ ہماری ملکی حا لت اور قوم کے اجتما عی رویئے کو دیکھ کر لگتا ہے کہ غا لب کی طرح ہماری فاقہ مستی کے رنگ لا نے کا وقت بھی آگیا ہے اگر ابھی وقت نہیں آیا تو کم از کم یہ خد شہ تو ہے کہ وہ وقت زیا دہ دور نہیں ہے یہاں پا کستان پر چڑ ھنے والے قرضوں کی تاریخ کو دہرا نا چند اں ضروری نہیں یہ وقت رونے دھونے کی جگہ آگے بڑھ کر مستقبل کیلئے کام کا وقت ہے اور مستقبل کیلئے ہمارے سامنے تین اہم کام ہیں خسا رے میں چلنے والے سرکاری اداروں کی نجکاری‘ وی آئی پی کے پروٹو کول میں چلنے والی
گاڑیوں کا خاتمہ اور کھرب پتی شخصیات کو ملنے والی سرکاری مرا عات کی واپسی‘ ان تین اقدامات سے اگلے 10سالوں میں نہ صرف پا کستان پر قرضوں کا بو جھ ختم ہو گا بلکہ آنے والے سالوں میں ہمارا ملک معا شی استحکام حا صل کریگا ‘ صنعتی اور زرعی شعبے کی پیداوار میں بھی اضا فہ ہو گا اگر تینوں تجاویز کا الگ الگ جا ئزہ لیا جا ئے تو یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ پا کستان سٹیل ملز اور پی آئی اے ہر سال قومی خزا نے کو کھر بوں روپے کا نقصان پہنچا رہی ہیں لیکن حکومت ان کی نجکاری میں سنجیدگی نہیں دکھاتی۔ بہرحال ملازمین کا خیال رکھنا ضروری ہے‘ بے روزگار کسی کو نہ کیا جائے۔
2003ءمیں اگر پا کستان سٹیل کو فروخت کر دیا جاتا تو 400 ارب روپے حکومت کو یکمشت وصول ہوتے اور 2003سے اب تک 20 سالوں میں سٹیل ملز کو دی جا نے والی امداد کی مد میں 200 ارب روپے بھی بچ جا تے یہی حا ل ریلوے اور پی آئی اے اور دیگر قومی اداروں کا ہے جو اپنا خسارہ قومی خزا نے سے لیکر پورا کر تے ہیں اگر اس طرح کے 10قومی اداروں کو فروخت کیا گیا تو قومی خزا نے میں 820کھر ب روپے سے زیا دہ آمدنی جمع ہو گی آنے والے سالوں کے خسا رے سے قومی خزانے کو نجا ت مل جائے گی ہم خر ما ہم ثواب والا معا ملہ ہو گا اسی طرح وی آئی پی یعنی اہم شخصیات کے پرو ٹو کول میں 42ہزار گاڑیاں تیل جلا تی اور ٹائر گھساتی پھر تی ہیں ان گاڑیوں میں 80ہزار سرکاری ملا زمین بھی دن رات چند لوگوں کی خد مت میں مگن رہتے ہیں ان گاڑیوں پر اٹھنے والے اخراجات کا تخمینہ سالانہ 420ارب روپے لگا یا گیا ہے ‘ ملا زمین کی
تنخواہوں پر اٹھنے والا خر چہ 180ارب روپے کے برابر ہے گویا قومی خزانے کا 600ارب روپیہ پروٹوکول اور سکیورٹی پر خر چ ہو تا ہے ‘ اگر حکومت ملک کو قرضوں کے بو جھ سے آزاد کر نے میں مخلص ہو تو اس نامنا سب رسم کو ختم کر کے سالانہ 600 ارب روپے کی بچت کی جا سکتی ہے بیشک ملک پر مو جو دہ ما لی سال کے دوران 820 کھرب روپے قرضوں کا بوجھ پڑنا تشویشنا ک بات ہے مگر اس سے زیا دہ تشویشنا ک بات یہ ہے کہ حکومت کے پاس قرضوں سے نجات کا کوئی منصو بہ نہیں وفاق میں وزا ر توں کی تعداد کم کر کے 7 وزیروں تک محدود کر نے کی کوئی تجویز نہیں صوبوں میں کابینہ کی تعداد 12 وزیروں تک محدود کرنے کی کوئی معقول تجویز نہیں آئندہ بھی کوئی منتخب سیا سی حکومت یہ کا م نہیں کر سکے گی اس وجہ سے مو جودہ حا لات میں نگران حکومت کو ان اہم کاموں کا بیڑا اٹھانا ہو گا تا کہ منتخب حکومت آنے سے پہلے ملکی معیشت کے حوالے سے مثبت اور با مقصد پیش رفت ہو سکے ورنہ فر مودہ غا لب ہماری قومی زند گی پر صادق آتا رہے گا ۔