ایک پارٹی میری ہر دل عزیز پارٹی ہواکرتی تھی اور وہ کسی بھی ماتحت یا آفیسر کی ریٹائرمنٹ کی پارٹی ہوتی تھی ‘زندگی کے کئی معاملات میں میری حساسیت بہت زیادہ ہے اس لئے میں اس دن کو حساس دن سمجھتی تھی اس شخص کیلئے جو اپنی زندگی کے حسین اور توانا شب و روز اپنے محکمے کو دے کر جا رہا ہوتا ہے‘ جب بھی مجھے علم ہوتا فلاں شخص ریٹائرڈ ہو رہا ہے میں اس میں شرکت کرتی اور اس کیلئے بہت اچھے الفاظ میں اس کو یاد رکھتی ‘اگر کسی طور میں اس پارٹی میں شریک نہ ہو سکتی تو مبارکباد کا پیغام اس تک ضرور پہنچاتی تھی ‘مبارکباد اس بات کی کہ ملازمت کے ساتھ انسان کی عزت آبرو جڑی ہوئی ہوتی ہے اور آج کے دن وہ اپنی آبرو سمیٹ کر جا رہا ہوتا ہے‘ زندگی کا ایک ایسا باغ جس میں گلابوں کے ساتھ ساتھ نوکیلے کانٹے بھی تھے اور ان خاروں سے اس کا دامن ملازمت کے آخری دن تک محفوظ رہا اور پھر اپنی ریٹائرمنٹ کا دن آگیا اور بے شک میں شکل و صورت سے ابھی ریٹائرمنٹ کی عمر کہیں نہیں لگ رہی تھی لیکن شکر گزاری کے الفاظ ان پیاری مصیبتوں کیلئے کہ پشاور شہر کی تنگ گلیوں میں رہنے والے کشادہ ظرف لوگ جو تعلیم سے محبت رکھتے تھے اور خصوصاً بیٹیوں کو تعلیم دلوانے کیلئے تگ ودو کرتے تھے انہوں نے مجھے زیور تعلیم سے مالا مال کردیا تھا اگر اس زمانے کے رواجوں کے مطابق عمر زیادہ لکھوا دی گئی تھی تو یہ کوئی ایسی بات نہ تھی‘ ہمارا ایک کولیگ ڈرامے کی دنیا کا بڑا نام برکت اللہ ریٹائر ہوا تو کہنے لگا کہ میری عمر تو بس ویسے ہی کاغذوں کی خانہ پری تھی ‘ ہم سب کے پاس اس طرح کی چھوٹی چھوٹی پیار بھری اپنی ماﺅں کی کہانیاں تھیں ریٹائرمنٹ تو ایک خوبصورت اور حسن کی طرح ہے کہ اس کو کوئی جتنا جان پاتا ہے وہ اتنا ہی اس معاشرے کیلئے اپنے گھربار کیلئے‘ خوبصورت اور مفید ہوتا جاتا ہے مجھے بڑا ڈر لگتا ہے جب میں سنتی ہوں کہ فلاں شخص نے اپنے کام سے ریٹائرمنٹ کو اتنا زیادہ دل سے لگا لیا کہ دل کا دورہ جان لیوا ثابت ہوگیا‘ میں افسوس سے سوچتی ہوں کہ ابھی تو فرصت کا وقت ملا تھا کہ تم اپنے بارے میں سوچتے‘ اور تم نے دل کو ہار دیا‘ کچھ دن پہلے میرے بہت عزیز کولیگ کی ریٹائرمنٹ تھی کئی دن پہلے سے میں نے اس کو کہنا شروع کر دیا کہ دیکھو اس بات کو دل سے نہ لگا لینا کیونکہ میں دیکھتی تھی اس کا چہرہ پژمردہ ہوتا جا رہا ہے وہ صبح8بجے گھر سے نکلنے اور دفتر کی کرسی پر بیٹھنے کا اتنا عادی ہو چکا ہے کہ جب ایک دن8بجے صبح تیار نہیں ہوگا تو اس کا دل میں بیٹھ جائے گا بہرحال اپنے دھواں دار قسم کے وعظ و نصیحت اور مزاج کی تمام زور آزمائیاں کرتے میں اس بات میں کامیاب ہوگئی کہ اس کو ذہنی طور پر اس افتاد سے محفوظ کرلوں جو اصل میں اس کی زندگی کا اک انمول باب بننے والا ہے کسی دانا نے کہا تھا کہ زندگی چیپٹر میں آتی ہے ایک چیپٹر بند ہوتا ہے تو فوراً ہی دوسرا کھل جاتا ہے آپ کے اور میرے بھی کئی ساتھی تھے جو اس زندگی کو قبول نہیں کر سکے اور فوراً ہی بیمار ہوگئے یا دنیا ہی چھوڑ گئے لیکن وہ لوگ جو اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد کی زندگی کے بارے میں اپنی مصروفیات کو بچا کے رکھتے ہیں وہ کبھی بوڑھے نہیں ہوتے‘ ادیب شاعر‘ استاد‘ ٹیکنیکل کام کرنے والے لوگ‘ ڈاکٹر‘ مصور وکیل یہ تمام وہ لوگ ہیں جو ہمیشہ بہت بڑھاپے تک بھی اپنے کام میں مگن رہتے ہیں اس لئے وہ لوگ بھی جن کی تعلیم کی نوعیت دفتر تک محدود ہو وہ ریٹائرمنٹ کے بعد کیلئے اپنی بہترین مصروفیت میں اپنا دل لگاتے دیکھیں‘ اپنی ذات سے پیار سب سے بڑی دلچسپی ہے یہ وہ وقت ہے کہ آپ ابھی بالکل جوان ہیں اور آپ کو اپنے وہ رکے ہوئے کام کرنے کا موقع مل جاتا ہے جس کو کرنے کیلئے آپ ہمیشہ لمبی چھٹی کا پلان بناتے رہتے تھے لیکن دفتری کام کی مصروفیات نے آپ کو ایسا کرنے نہیں دیا‘ اپنے جیون ساتھی کے ساتھ سیاحت کے پروگرام بنائیں یہ سیاحت سے آپ کے ذہن کی وسعت نظری میں بے پناہ اضافہ ہوتا ہے‘ جیسے کہ میں نے شروع میں کہاکہ زندگی دھیرے دھیرے اپنے ایک خانے سے اٹھا کر دوسر ے میںرکھتی جاتی ہے بس زندگی کے اس حصے کو خوش اسلوبی سے قبول کرلیں اگر نہیں بھی کرینگے تو اس نے آنا تو ہے تو پھر کرلینا چاہئے وہ لوگ جو رب کا شکر کرتے ہیں وہ اس کے دیئے ہوئے میں ہر حال میں نہ صرف خوش رہتے ہیں بلکہ شکرانے کے نفل بھی ادا کرتے ہیں ‘بے شک ایک دن زندگی ہمیں ایک ایسے خانے میں بھی لے جانے والی ہے جو شاید ہماری زندگی کا آخری خانہ ہوگا تو اس کی تیاری میں کبھی غفلت سے کام نہیں لینا چاہئے ۔
اشتہار
مقبول خبریں
اسپین کا خوبصورت شہر سویا
آفتاب اقبال بانو
آفتاب اقبال بانو
محلہ جوگن شاہ سے کوپن ہیگن تک کی لائبریری
آفتاب اقبال بانو
آفتاب اقبال بانو
درختوں کا کرب
آفتاب اقبال بانو
آفتاب اقبال بانو
ہالینڈ کی ملکہ اور ان کی پاکستانی دوست
آفتاب اقبال بانو
آفتاب اقبال بانو