ٹیکس نیٹ 

نئے ما لی سال کے بجٹ کی تیاری کا عمل شروع ہو چکا ہے اور ٹیکس نیٹ کو مزید پھیلا نے کی نویددی گئی ہے سرکاری محصولات کے جال کو ٹیکس نیٹ کہا جا تا ہے جس طرح شکاری زیا دہ سے زیا دہ مچھلیوں یا پرندوں کو جا ل میں پھنسا نے کےلئے اپنے جا ل کو زیا دہ سے زیادہ پھیلا تا ہے اس طرح حکومتیں بھی رعایا میں زیا دہ سے زیا دہ لو گوں کو ٹیکس میں پھنسا نے کےلئے جا ل کو مزید پھیلا تی ہیں ظا ہر ہے ٹیکس نیٹ جس قدر پھیلے گا اتنے ہی زیا دہ لو گ اس جال میں پھنس جا ئینگے اس بار ٹیکس نیٹ کو پھیلا کر غریبوں کو مزید پھنسا نے کا پروگرام ہے یہ بات درست ہے کہ وطن عزیز پا کستان کو معا شی مشکلا ت کا سامنا ہے یہ بات بھی درست ہے کہ ہماری حکومت نئے سال کا بجٹ اپنی مر ضی اور اپنی تر جیحات کے مطا بق نہیں بنا تی جن سے قرض لیا ہے اور جن سے مزید قرض لینے کا منصو بہ ہے انکی مر ضی سے انکی تر جیحات کے مطا بق بجٹ بنا تی ہے مقا صد انکے ہیں ، اہداف انکے ہیں ہدایات بھی انکی ہیں بجٹ ہمارا ہے‘ مرزا غا لب نے بے وفا محبوب کے بارے میں لا جواب شعر کہا تھا نیند اس کی ہے دما غ اس کا ہے راتیں اس کی ہیں تیری زلفیں جس کے بازو پر پریشان ہو گئیں ‘ہمارا بے وفا محبوب آئی ایم ایف جو ہمارے آمدنی اور اخرا جا ت کا حساب لگا کر اس میں اپنے قرض کی قسط نکا لنے کےلئے ہمارا بجٹ اپنی منشا اور مر ضی کا بنا تا ہے اس وقت صورتحال یہ ہے کہ ہمارے قومی بجٹ کے اندر آمدنی اور اخرا جا ت کے درمیان بہت فرق اور خلا ہے اس خلا کو خسارہ کہا جا تا ہے بجٹ کا خسارہ پورا کر نے کے دو طریقے ہیں پہلا طریقہ یہ ہے کہ اخرا جات کم کر و خسا را پور اہو جا ئےگا یہ طریقہ آئی ایم ایف کو پسند نہیں ، دوسرا طریقہ ایسا ہے کہ لو گوں پر ٹیکس لگا ﺅ یہ طریقہ آئی ایف کو بہت پسند ہے اس میں بھی دو ممکنہ طریقے ہیں اول یہ کہ امیر وں پر ٹیکس لگا ﺅ یہ بھی آئی ایم ایف کو پسند نہیں دوم یہ کہ غریبوں پر مزید ٹیکس لگاﺅ اس طریقے کو آئی ایم ایف والے بہت پسند کر تے ہیں اس وقت غریب اور متوسط طبقے پر ایک براہ راست ٹیکس عائدہے جو حکومت آسانی سے وصول کر تی ہے یہ ملا زمت پیشہ اور کا رو باری شہریوں سے 2لا کھ کی سالا نہ آمدنی پر 12فیصد 3لا کھ آمدنی پر 22فیصد ، 5لا کھ آمدنی پر 27فیصد لیا جا تا ہے ، دوسرا ٹیکس بالواسطہ ٹیکس کہلا تا ہے یہ سیلز ٹیکس کہلا تا ہے جس غریب کی آمدنی ایک ڈالر روزانہ سے بھی کم ہے وہ بھی ما چس کی ڈبیہ پر سیلز ٹیکس دیتا ہے ، خشک چائے کی پتی پر سیلز ٹیکس دیتا ہے ، بس میں سفر کر تا ہے تو پٹرول ،ڈیزل اور سی این جی پر سیلز ٹیکس دیتا ہے غر بت کی لکیر سے نیچے زند گی گذار نے والا غریب روز مرہ استعمال کی 28چیزوں پر سیلز ٹیکس ادا کرتا ہے اسکے جواب میں حکومت اس کو زند گی گذار نے کی کوئی سہو لت نہیں دیتی اس لئے جب بھی غریب اور متوسط طبقے کو ٹیکس نیٹ میں لا نے کی تجویز آتی ہے اس کو معقول تجویز قرار نہیں دیا جا تا مو جو دہ حالات میں آئی ایم ایف کےساتھ مل کر ہماری حکومت کے متعلقہ حکام کو دو اہم باتوں پر تو جہ دینا چاہئے ، پہلی بات یہ ہے کہ بجٹ کا خسارہ کم کرنے کےلئے سر کار کے غیر پیدا واری اخرا جا ت میں کمی کی جا ئے ، وفاق میں کئی وزارتیں ، کئی ڈویژن اور کئی اتھارٹیز ایسے قائم ہیں جن کی ملک اور قوم کو ضرورت نہیں ایسے دفا تر کو ختم کرنے سے وفاقی کا بینہ کے وزیروں کی تعداد 92سے کم ہو کر 7یا 8ہو جائیگی حقیقت بھی یہ ہے کہ پا کستان کو 65 وزرا ءاور 30مشیروں یا معاونوں کی کوئی ضرورت نہیں اس طرح صو بوں میں 12سے زیا دہ محکموں اور 12سے زیا دہ وزیروں کی قطعاً کوئی حا جت نہیں گورنر ہاﺅس ، ایوان صدر اور وزیر اعظم ہاﺅ س کے اخرا جات بھی فضو لیات میں شا مل ہیںاس طرح وی آئی پی کے پرو ٹو کول اور سکیورٹی پر اٹھنے والے ارب ہا روپے کے سالا نہ اخراجات قومی خزانے پر غیر ضروری بوجھ ہیں ان اخرا جات کو ختم کیا جا ئے تو ہر سال 6کھر ب روپے کی بچت ہو گی اس طرح صنعتکاروں اور جا گیر داروں پر ٹیکس لگا یا جا ئے تو سالا نہ 4کھرب روپے محا صل قومی خزا نے میں آئینگے آئی ایم ایف ایسا اندھا ہے جس کو دور بین اور خوردبین میں غریب نظر آتا ہے سامنے بیٹھا ہوا جاگیردار نظر نہیں آتا۔