صوبہ میں بلدیاتی انتخابات کو دو برس مکمل ہوگئے ہیں جبکہ بلدیاتی نمائندوں کو حلف اٹھائے 21ماہ کا عرصہ ہوچکا ہے'تاہم اطلاعات کے مطابق 131تحصیلوں میں سے 95تحصیلوں کے دفاتر قائم نہ ہوسکے اور گزشتہ دو برس میں بلدیاتی نمائندے اختیارات مانگتے رہے اور فنڈزاور دفاترکی تلاش میں سرگرداں رہے'سابق صوبائی حکومت کی جانب سے بلدیاتی ایکٹ 2019میں متعددترامیم کرکے تحصیل چیئرمینوں 'میئروں اور ویلج ونیبرہڈچیئرمینوں کوبے دست وپاکردیا گیا'گزشتہ صوبائی حکومت کی جانب سے مقامی حکومتوں کے سرپردست شفقت نہیں رکھا گیا'سابق صوبائی حکومت نے 41 ارب روپے مقامی حکومتوں کو دینے تھے تاہم ان میں سے ایک روپے کا اجراء بھی ممکن نہ ہوسکا'رولز آف بزنس جاری کرکے ازخود ایکٹ کے ساتھ چھیڑچھاڑ کی گئی 'میئرپشاوراور مردان کوایکٹ میں دیئے گئے اختیارات سے خصوصی طور پر محروم رکھنے کے الزامات بھی سامنے آئے'صوبائی فنانس کمیشن کی رقم بھی گزشتہ دو بجٹوں میں جاری نہیں کی گئی ہے 'مجبورہوکر بلدیاتی نمائندوں کو عدالت سے رجوع کرنا پڑایہ کیس تاحال زیرسماعت ہے'گزشتہ دو برس میں بلدیاتی نمائندوں کی جانب سے کوئی منصوبہ شروع نہیں کیا گیا ہے تاہم سابق حکومتی جماعت کے بلدیاتی نمائندوں کو ارکان اسمبلی کے فنڈزسے ترقیاتی منصوبوں کے لئے رقم ملتی رہی ہے'ان مسائل کی وجہ سے بلدیاتی نمائندے آج یوم سیاہ منارہے ہیں۔2دسمبر2022 کو صوبائی حکومت نے میئراورتحصیل چیئرمین کی تنخواہ 30ہزاراور ویلج کونسل اور نیبرہڈکونسل کے چیئرمین کا اعزازیہ 20ہزارروپے مقررکیا تاہم یہ پیسے بھی ابھی تک جاری نہیں کئے گئے'دوسری جانب خصوصی نشستوں پر آنے والے بلدیاتی نمائندوں کو کسی قسم کے اعزازیہ یاتنخواہ سے محروم رکھا گیا ہے 'ترقیاتی کمیٹیوںمیں ضلع کی سطح پر کوئی بلدیاتی نمائندہ شامل نہیں ہے جبکہ تحصیل کی سطح پر ترقیاتی کمیٹی میں اسسٹنٹ کمشنر کو نگران بنایاگیا ہے جس کی تبدیلی پر کام جاری ہے تاہم اس وقت میئراور چیئرمین اس کمیٹی کے سربراہ نہیں ہیں'صوبہ بھر میں مقامی حکومتوں کایہ تازہ تجربہ مکمل طورپر غیرسنجیدگی اور تعصب کاشکار ہے اور اب شہری اس نظام سے مکمل مایوس نظرآتے ہیں۔