کچھ ادارے ایسے ہوتے ہیں جن کی وجہ سے کسی شہر کی شنا خت ہو تی ہے لیڈی ریڈنگ ہسپتال اور پشاور یو نیورسٹی کو اگر پشاور کی شنا خت کہا گیا ہے تو اس میں اچھنبے کی کوئی بات نہیں اور اگر اخبارات میں یہ خبر آگئی ہے کہ لیڈی ریڈنگ ہسپتال شدید مالی اور انتظا می بحران سے دو چار ہو گیا ہے تو اس پر بھی کسی کو حیرت نہیں ہونی چاہئے پشاور یونیورسٹی بھی شدید ما لی اور انتظامی بحران کا شکار ہے صوبے کے 32دیگر اہم سرکاری ادارے اس طرح ما لی مشکلات اور بد انظا می کی شدید ترین صورتحال سے دو چار ہیں لو گ پوچھتے ہیں کہ ما لی مشکلات کا پہلا نمبر ہے یا انتظا می بد عنوانی کا پہلا نمبر ہے؟ تو ہمارا جواب ہوتا ہے کہ یہ مر غی پہلے یا انڈہ والا سوال نہیں جو سمجھ میں نہ آسکے یہاں سیدھا سادہ معا ملہ ہے پہلے اداروں میں سیاستدانوں کی مداخلت ہو تی ہے سیا سی بندے کو ادارے کے بڑے اختیارات دیئے جاتے ہیں وہ اہم معاملات میں بد عنوا نی کر تا ہے کچھ خود کھاتا ہے کچھ اوپر والوں کو دیتا ہے یہاں سے بدانتظامی جنم لیتی ہے بد انتظامی کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ چور یاں حد سے
بڑھ جا تی ہیں اور چوریوں کی وجہ سے ما لی بحران آجا تا ہے پا کستان سٹیل‘ واپڈا‘ ریلوے اور پی آئی اے میں ایسا ہی ہواتھا‘ لیڈی ریڈنگ ہسپتال اور پشاور یو نیورسٹی میں بھی ایسا ہی ہوا ہے سیا سی مداخلت‘ بد انتظامی اور ما لی بحران ایک ہی زنجیر کی کڑیاں ہیں جس ادارے میں کوئی سیا سی سربراہ آیا پہلے ہی دن اندازہ ہو جا تا ہے کہ انتظامی حما قتیں سراٹھائیں گی اور ان حما قتوں کے نتیجے میں ادارہ دیوالیہ ہو جائے گا پشاور یونیورسٹی قائد اعظم کے وژن اور ان کی وصیت کے مطا بق 1950ءمیں قائم ہو ئی با بائے قوم نے اپریل 1948ءمیں اسلا میہ کا لج پشاور کے دورے پر آکر اپنی تقریر
میں کہا تھا کہ یہاں سے علم کی جو شمعیں روشن ہونگی وہ پورے وسطی ایشیا کو منور کریں گی بابائے قوم نے اپنی ذاتی جا ئیداد کا ایک حصہ بھی اس مقصد کیلئے وقف کیا تھا پھر ایسا ہوا کہ پشاور یونیورسٹی بن گئی‘ پہلے ملکی یونیورسٹیوں میں ممتاز حیثیت اختیار کر گئی پھر عالمی سطح پر یو نیورسٹیوں کی رینکنگ میں اس کا نا م آنے لگا پھر ایسا ہوا کہ سیاسی مداخلت نے اس تاریخی یونیورسٹی کوا پنی لپیٹ میں لے لیا اور 60کروڑ روپے کا فنڈ رکھنے والے ادارے کا سارا فنڈ ختم کر کے اس کو مزید 60کروڑ روپے کا مقروض بنا یا گیا یہی حال لیڈی ریڈنگ ہسپتال کا ہوا ہے سینئر ڈاکٹروں کے استعفے دینے کا سلسلہ جا ری ہے اہم شعبے بند ہونے کا سلسلہ بھی چل رہا ہے دنیا کے کامیاب اداروں کے سربراہ سیا سی لوگ نہیں ہوتے امریکہ کی ہارورڈ یو نیورسٹی کا چانسلر کوئی گورنر یا صدر وغیرہ قسم کا آدمی نہیں ہوتا برطانیہ کے کرامویل ہسپتال کا سربراہ ملکہ‘ بادشاہ یا وزیر اعظم کا نمائندہ نہیں یا
اس کا نا مزد کر دہ نہیں ہوتا لیڈی ریڈنگ ہسپتال کی تاریخ میں ہمارے لئے سبق ہے لارڈ ریڈنگ 1921ءسے 1926ءتک متحدہ ہندوستان کے وائسرائے تھے ان کی بیگم لیڈی ریڈنگ نے اپنی ذاتی کما ئی کی بچت سے 1927ءمیں لیڈی ریڈنگ ہسپتال بنایا انہوں نے اپنے شوہر کے سرکاری دفتر کو استعمال نہیں کیا اپنے شوہر کے اثر ورسوخ کا فائدہ نہیں اٹھا یا یا سرکاری دولت خر چ کر کے اس پر اپنا نا م جعلی طریقے سے نہیں لکھوایا 1927ءمیں اس خا تون نے اپنی جیب سے 50 ہزار روپے اس منصوبے پر خر چ کئے دیانتداری اور حب الوطنی کا تقا ضا یہ ہے کہ کسی ہسپتال یا تعلیمی ادارے کے انتظامی اختیارات کسی بھی سیاستدان کے ہاتھ میں نہیں ہونے چاہئیں‘ سیاستدان میرٹ کو پا مال کر کے اپنا آدمی لے آتا ہے کیونکہ اس نے الیکشن لڑنا ہے سیاستدان کا نامزد شخص کسی ادارے کا مفاد نہیں دیکھے گا اپنا ذاتی مفاد ہی دیکھے گا لیڈی ریڈنگ ہسپتال اور پشاور یونیور سٹی کا انتظامی اور ما لی بحران افسوسنا ک ہے اس کے مختلف پہلوو¿ں کی تحقیق ہونی چاہئے۔