مہنگائی کاطوفان'مساجد کے امام اورخادمین کی تنخواہ نہ ہونے کے برابر

مہنگائی کے باعث جہاں ہر طبقہ متاثر ہے وہاں اس معاشرے میں ایک طبقہ ایسا بھی ہے جس کی ماہانہ تنخواہ حکومت کی مقرر کردہ اجرت 32ہزار سے روپے سے بھی کم ہے ۔ یہ طبقہ امام مسجد ، موذن اور خادمین ہیںجن کو علاقے کی سطح پرو اقع مساجد میں آمدنی کے ذرائع کے مطابق تنخواہیں ملتی ہیں ۔ متوسط اورغریب علا قوں کے بیشتر مساجد میں امام مسجد ، موذن اورخادمین کی تنخواہیں 8ہزار روپے سے لیکر 12ہزار روپے تک ہے جبکہ بیشتر علاقوں میں یہ تنخواہیں آٹھ ہزار سے لیکر بیس ہزار روپے یا اس سے کم ہیں۔ مہنگائی کے اس دور میں دینی خدمات فراہم کرنے والے یہ شخصیات کم آ مدنی میں اپنے اخراجات کو پورے کر رہے ہیں۔ ان افراد کی زندگی بہت سادہ ہوتی ہے ۔ پشاور میں مختلف مساجد کی انتظامیہ سے وابستہ اراکین کے مطابق مساجد کی آمدنی کا ذریعہ چندہ ، یا مخیر حضرات کاتعاون ہوتا ہے سرکاری سطح پر مساجدکو کوئی گرانٹ نہیں ملتا ۔ ہر مسجد اپنا مالیاتی نظام خود چلاتا ہے ۔ آمدنی کے ذرائع خود پیدا کرتی ہے ۔ آمدنی اور اخراجات کو مد نظر رکھتے ہو ئے ان افراد کی تنخواہوںکا تعین کیا جاتا ہے ۔ بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ کے باعث مساجد ، مدارس کو بھی شدید ترین مالی مشکلات کاسامنا کرنا پڑ رہا ہے ۔ دین کی خدمت میں مصروف امام مسجد ، موذن ، خادمین کے مطابق مہنگائی کے باعث گزارہ بہت مشکل ہو گیا ہے اگر مخیر حضرات مستقل بنیادوں پر مساجد کی امدادکرے تو ان کی تنخواہوں میں اضافہ ہو سکتا ہے کم آمدنی کے باعث یہ طبقہ زندگی کے بہت سے ضروریات سے محروم ہیں۔ مہنگائی کے اس دور میں اس تنخواہ پر گزارہ بہت مشکل ہے ۔ بیشتر امام اور موذن اپنی آمدن کا ذرائع بڑھانے کے لئے مختلف مدارس ، مختلف پرائیویٹ سکولوں میں بھی خدمات سرانجام دیتے ہیں جبکہ بعض سرکاری سکولوں میں خدمات سرانجام دیتے ہیں ۔ جبکہ اس کے علاوہ مخیر حضرات بھی خاموشی سے ہمارے ساتھ تعاون کرتے ہیں شکر ہے کہ ہمارے اخراجات پورے ہو جاتے ہیں ۔ بیشتر خادمین اپنے ذرائع آمدن بڑھانے کے لئے چھوٹے موٹے کام بھی کرتے ہیں جس سے ان کو اضافی آمدنی حاصل ہوتی ہے ۔ کم آمدنی کے باعث بچوں کو تعلیم دینے میں بھی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ۔