سابق وزیرِاعظم اوربانی چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان اور سابق وزیر خارجہ شاہ محمود کےخلاف سائفر کیس کے سماعت آج راولپنڈی کی اڈیالہ جیل میں ہوگی۔
سائفر کیس کی سماعت خصوصی عدالت کے جج ابو الحسنات ذالقرنین کریں گے۔ خصوصی عدالت نے سائفر کیس کی سماعت کو ’ان کیمرہ‘ ڈیکلیئر کیا ہے۔
پراسیکوٹرز کی جانب سے آج مزید 3 گواہوں کو عدالت میں پیش کیا جائے گا، اب تک 6 گواہان کو یش کیا جا چکا ہے جن پر ملزمان کے وکلا کی جانب سےجرح کا عمل بھی مکمل ہوچکا ہے۔
اس سے قبل اس کیس کی 3 سماعتیں اوپن کورٹ میں ہوئیں جن میں صرف مخصوص افراد اور میڈیا پرسنز کو اڈیالہ جیل کے اندرقائم کی جانے والی اس خصوصی عدالت میں جانے کی اجازت ملی تھی۔
دوسری جانب سپریم کورٹ نے 22 دسمبرکو سائفر کیس میں بانی پی ٹی آئی عمران خان اور شاہ محمود قریشی کی ضمانت بعد از گرفتاری کی درخواستیں منظورکی تھیں۔
تاہم عدالت عظمیٰ کی جانب سے ضمانت کی منظوری کے باوجود عمران خان کی جیل سے رہائی ممکن نہیں ہے کیونکہ عمران خان 190ملین پاؤنڈ اور القادر ٹرسٹ کیس میں گرفتارہیں ۔
فرد جرم کب عائد ہوئی
آفیشل سیکریٹ ایکٹ 1923 کے تحت قائم خصوصی عدالت نے سائفر کیس میں چیئرمین پی ٹی آئی اور شاہ محمود قریشی پر 23 اکتوبر کو فرد جرم عائد کی تھی، جس میں کہا گیا ہے کہ عمران خان نے سائفر اپنے پاس رکھ کر سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا، اور شاہ محمود نے اس جرم میں ان کی معاونت کی۔
عمران خان اور شاہ محمود کیخلاف چارج شیٹ
چارج شیٹ میں کہا گیا ہے کہ 7 مارچ 2022 کو واشنگٹن سے موصول سائفر غیر متعلقہ افراد کو سونپا گیا، اور دونوں ملزمان خفیہ دستاویزات کی معلومات سے متعلق رابطوں میں ملوث پائے گئے، ان کے خلاف رواں سال 15 اگست کو سائفر کیس کا مقدمہ درج ہوا۔
فرد جرم کے مطابق سابق وزیراعظم نے اعظم خان کو سائفرکے منٹس اپنے انداز سے تیار کرنے کی ہدایت کی، اور اس جرم میں شاہ محمود قریشی نے بانی پی ٹی آئی کی معاونت کی، اور آفیشل سیکرٹ ایکٹ کی سیکشن 5 اور 9 کے مرتکب ٹھہرے ہیں۔بیرون ملک پاکستان کے کمیونیکیشن سسٹم کو کمپر ومائز کیا گیا۔ اس عمل سے ریاست پاکستان کی سیفٹی متاثر ہوئی، عمران خان نے سائفر اپنے پاس رکھ کر سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کیا۔