ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن 

صوبائی حکومت کے محکموں میں ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کو بیحد اہم مقام حا صل ہے یہ محکمہ صوبائی محا صل کا بڑا حصہ جمع کر تا ہے اور سالا نہ بجٹ میں صو بائی آمدنی کے حوالے سے اس محکمے پر بھی انحصار کیا جاتا ہے اس وجہ سے تو قع یہ ہو تی ہے کہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کا کوئی کا م چوبیس گھنٹے سے زیادہ تعطل کا شکار نہیں رہے گا گزشتہ روز نگران وزیر اعلیٰ جسٹس (ر) سید ارشد حسین شاہ نے صوبائی محکموں پر زور دیا ہے کہ اپنے اہداف وقت پر پورا کریں صو بے کی انتظا می مشینری میں کوئی کام لٹکا ہوا نہیں رہنا چاہئے اس طرح وسائل کا ضیاع ہو تا ہے عوام کو کئی مسائل اور دقتوں کا سامنا کرنا پڑ تا ہے ویسے اگر دیکھا جائے تو کئی محکموں میں کئی کام تعطل سے دو چار ہیں ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کے محکمے نے دو سال پہلے تما م گاڑیوں کیلئے یکساں نمبر پلیٹوں کی منظوری دی تھی‘ دوسال گزرنے کے باوجود کسی بھی ضلع میں کوئی نمبر پلیٹ فراہم نہیں کی گئی‘ لو گ دفتروں کے چکر لگا لگا کر تنگ آچکے ہیں یہ ایسا کام تھا جسے دو مہینے سے کم 
مدت میں مکمل ہونا چاہئے تھا مگر لگتا ہے گاڑیوں کیلئے یکساں نمبر پلیٹ بنانا بادشاہوں والا کام ہے اور باد شاہوں کے کا موں کی اپنی ایک تاریخ ہو تی ہے واقعہ مشہور ہے ایک ملک میں بادشاہ ہوا کر تا تھا اس کی رعایا پروری مشہور تھی غریبوں کے ساتھ اس کو بیحد لگاو¿ تھا وہ کہا کر تا تھا کہ میری بادشاہت میں غریبوں کا کام سورج طلوع ہونے سے سورج غروب ہونے تک رکنا نہیں چاہئے کرنا خدا کا ایسا ہوا کہ دریا پار غریبوں کو کچی جھونپڑیاں تھیں جھونپڑیوں میں رہنے والے لو گ لکڑیوں کے کچے پل پر سے گزر کر مزدوری کیلئے شہر آتے تھے 
غریبوں کی اس بستی میں رہنے والے غریبوں نے باد شاہ کے دربار میں آکر فریاد کی کہ لکڑیوں کا پل ٹوٹا ہوا ہے اگر پل کی مر مت کروائی جائے تو بندہ پروری ہو گی‘ باد شاہ نے وزیر کو حکم دیا‘ وزیر نے تعمیرات کے ذمہ دار حاکم کو حکم دیا تعمیرات کے ذمہ دار حا کم نے اپنے ماتحت آفیسر کو حکم بھیجا‘ اس نے مزید نیچے حکم بھیجا نیچے سے اوپر تک حکم آتے جا تے رہے ایک دن باد شاہ کو خیال آیا کہ دریا کے پار جھونپڑیوں میں رہنے والے غریبوں نے فریاد کی تھی کہ پل کی مرمت کی جا ئے اس پل کی مرمت ہو گئی یا نہیں‘ بادشاہ کا سوال وزیر اور حا کم تعمیرات سے ہوتے ہوئے نیچے گیا تو نیچے سے جواب آیا کہ عالی جاہ! یہ دس سال پہلے کا واقعہ تھا ہم پل کی مرمت کیلئے موقع پر گئے تو معلوم ہوا کہ پل کو دریا بہا کر لے گیا تھا ہم نے دریا کے اس پار دیکھا تو جھونپڑیاں بھی نہیں تھیں مزید تفتیش کے 
بعد معلوم ہوا کہ تین سال پہلے جھونپڑیوں میں آگ لگی جھونپڑیاں جل گئیں جھونپڑیوں کے اندر رہنے والے سب لو گ مر گئے کوئی زندہ نہیں بچا بادشاہ کو بڑا دکھ اور افسوس ہوا کیونکہ وہ رعا یا پرور تھا ہمارے زما نے کے ایک بادشاہ کا نیا نیا قصہ کتاب میں آیاہے عکسی مفتی اسلام آباد میں وزارت ثقافت کے جائنٹ سیکرٹری تھے شاہی قلعہ لا ہور سے رپورٹ آئی کہ چھت میں سوراخ کی وجہ سے پانی اندر آرہا ہے تاریخی نوادرات ضا ئع ہورہی ہیں‘ عکسی مفتی لا ہور میں موجود تھا چھت پر جا کر دیکھا تو معمولی کام تھا دو گھنٹے تک ایک کاریگر نے کام کیا ایک ہزار روپے خر چ ہوئے اور چھت کی مرمت ہو گئی پا نی ٹپکنا بند ہوا اس واقعے کے چھ مہینے بعد معلوم ہوا کہ اس چھت کی مرمت کیلئے پچیس لا کھ روپے منظور ہو چکے تھے اس نظام کو سرخ فیتہ کہا جا تا ہے ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کے محکمے میں گاڑیوں کی نمبر پلیٹوں کا کام سرخ فیتے کی نذر ہو گیا ہے نگران وزیر اعلیٰ اور چیف سیکرٹری کی تھوڑی سی تو جہ سے مسئلہ حل ہو سکتا ہے۔