ممبئی سے پشاور تک 

سردار علی سردار امان کا شمار صاف ستھری زند گی گذار نے والی نما یاں پاکستانی شخصیات میں ہوتا ہے انہوں نے چترال میں آنکھ کھولی ممبئی میں تعلیم حا صل کی دنیا جہاں کی سیا حت کی اور پشاور میں وفات پائی 1975ءمیں بہت بڑے عہدے پر فائز تھے مجھے سرکاری ملا زمت میں آئے دو دن ہوئے تھے‘ دفتر کے ایک ساتھی نے کہا میرے ساتھ آﺅ سردار علی سردار امان کے پاس ایک سفارش لے کر جا نا ہے میں نے کہا میری کوئی واقفیت نہیں اُس نے کہا وہ سب چترالیوں کو جا نتا ہے تمہیں بھی پہچان لے گا میں نے حا می بھری یونیورسٹی ٹاﺅن میں ڈپٹی پوسٹ ماسٹر جنرل نارتھ کے دفتر جا کر پر چی پر نا م لکھوا کر اندر بھیج دیا فوراً بلا وا بھی آگیا اندر داخل ہوا تو بہت بڑا دفتر تھا صاحب نے اپنی کر سی سے اُٹھ کر مصا فحہ کیا خلاف توقع انہوں نے تعارف کی نو بت آنے نہ دی کام اور خد مت کے بارے میں پو چھا تو بتا یا کہ ایک پوسٹ ما سٹر زیر عتاب ہے اس کو معافی دے کر نو کری پر بحا ل کرانا ہے ، صاحب نے کہا جر م بہت بڑا ہے معا فی کے لا ئق نہیں مگر سفارش تگڑی ہے اس لئے نو کری پر بحا ل کرتا ہوں اپنے بچوں سے کہو کہ میرے بھا ئی کو دعائیں دیں ، پہلی ملا قات میں ” تگڑی سفارش “ اور ”بھا ئی “ کے دوبڑے تمغے ملنے پر میں حیران ہوا چائے بسکٹ سے میری تواضع ہوئی اور تعارف کے بغیر صاحب نے خود چل کر دروازے پر مجھے رخصت کیا اُس وقت میری عمر 23سال تھی ایک بچے سے انہوں نے حسب نسب ، قبیلہ کا کوئی سوال نہیں پوچھا جس کام سے گیا تھا وہ کام ہو گیا یہ حیرت کا مقام تھا پشاور میں رہ کر دس بارہ سال گذر گئے تو سینکڑوں نو جوان مجھے ملے جو صاحب سے ملنے گئے تھے ‘بے روز گار تھے جز وقتی کام ڈھونڈ کر اعلیٰ تعلیم کے لئے داخلہ لینا چاہتے تھے صاحب نے کسی ایک سے بھی قبیلے ، کنبے کا سوال نہیں پوچھا ہر ایک کو بھائی کہا اور پکی سرکاری نو کری پر لگا کر دفتر سے اس طرح رخصت کیا کہ خود دروازے پر آکر ”خو ب پڑھو، محنت کرو اور بڑا آدمی بنو “ کے تین کار آمد جملوں کی نصیحت کے ساتھ رخصت کیا یہ سردار علی سردار امان کا خا ص اسلوب تھا وہ بے روز گار نو جوانوں اور طا لب علموں کو حوصلہ دیتے تھے ان کی عزت نفس کا بڑا خیال رکھتے تھے اور اپنے عمل سے یہ تاثر دیتے تھے کہ اچھا انسان ہونا معنی رکھتا ہے بڑائی کر سی میں نہیں خد مت میں بڑائی ہے جس نوجوان کو آج سکیل 5یا 7میں بھر تی کیا اس کو دروازے پر رخصت کر نے سے گریڈ 20یا 21 کے آفیسر کی شان میں کمی نہیں آئیگی یوں وہ خدمت کے ذریعے عظمت کما نے والوں کےلئے مشعل راہ کی حیثیت اختیار کر گئے سردار علی سردار امان 1935ءمیں پیدا ہوئے تھے 30دسمبر 2028ءکو 88سال کی عمر میں انہوں نے وفات پائی 7سال کی عمر میں آپ نے اپنے والد کےساتھ ہندوستان کا سفر کیا ہندوستان کے شہر ممبئی میں ان کا داخلہ میو نسپلٹی سکول میں ہوا جو اردو میڈیم تھا پھر آپ کو سینٹ میر یزکے انگلش میڈیم سکول میں داخل کیا گیا جہاں سے آپ نے 1951ءمیں میٹرک پا س کیا آپ کے چچا زاد بھا ئی افضل علی افضل امان بھی آپکے ہم جماعت تھے میٹرک کے بعد چترال آکر آپ نے مڈل سکول میں پڑھا یا مڈل سکول کے پرنسپل کی حیثیت سے بھی خد مات انجا م دیں آپ کو جے وی کورس کے لئے ہری پور بھی بھیجا گیا لیکن دل نہیں لگا واپس کراچی جا کر جز وقتی ملا زمت کے ساتھ تعلیم کا سلسلہ جا ری رکھا اور ایم اے اکنا مکس کے بعد سول سروس آف پا کستان کا امتحا ن پا س کر کے پو سٹل سروس میں شمولیت اختیار کی سندھ ‘ بلو چستان ‘ اور پنجا ب میں اہم عہدوں پر فائز رہے ڈپٹی پوسٹ ما سٹر جنرل بن کر پشاور آئے گریڈ 21میں پا کستان پوسٹل سروسز کارپوریشن کے ڈائریکٹر جنر ل کے اعلیٰ عہدے پر فائز ہوئے جہاں سے 1995ءمیں آپ نے 34سال سروس کے بعد ریٹائرمنٹ لے لی اور پشاور میں سکونت اختیار کی سردار علی سردار امان کی شخصیت میں چار ایسی خصو صیات تھیں جو آپ کو دیگر ہم عصر آفیسروں سے ممتاز کر تی ہیں پہلی خصوصیت انتھک محنت ، دوسری خصو صیت اعلیٰ پیمانے کی دیانت دار ی اور صداقت تھی ، ان کے ساتھ ساتھ غریبوں سے محبت اور عوام کی خد مت بھی آپ کی نما یاں خصوصیات تھیں ۔