آج کل قوم کا نا م باربار خبروں میں آرہا ہے ،قوم نے ان کو مسترد کر دیا ہے، قوم کی توقعات پر ہم پورا اترینگے ، قوم کی امیدوں کا مر کز ہماری پارٹی ہے ، قوم ہمارے لیڈر کی طرف دیکھتی ہے ،قوم اپنے مسائل کا حل چاہتی ہے ،قوم کو آپ پر فخر ہے، قوم کا مستقبل ہماری پارٹی سے وابستہ ہے، قوم نے ہمیں مینڈیٹ دیا ہے ، ووٹ قوم کی اما نت ہے مگر آج تک ہم نے ان خبروں کے پیچھے جھا نک کر نہیں دیکھا کہ قوم سے کون مراد ہے ؟ قوم کدھر رہتی ہے ؟ قوم کی امنگوں کے بارے میں کس نے تحقیق کیا ہے ؟ اور قوم کا نما ئندہ بن کر قومی جذبات کی تر جما نی کا حق کس کو حا صل ہے ؟ہمارے دوستوں کا حلقہ اخباری کا رکنوں پر مشتمل ہے ان لوگوں نے قوم کے نا م کی تکرار اتنی بار سنی ہے کہ کان پک گئے ہیں دوستوں کے اس حلقے میں قوم کی الگ شنا خت مشہور ہے ہم جہاں کوئی معذور بندہ دیکھتے ہیں تو کہتے ہیں قوم کی مدد کرو ، جب کہیں بھکاری نظر آتا ہے ہم کہتے ہیں قوم کو بھیک دیدو ،جب کوئی پہلوان دنگل سے ہار کر آجا تا ہے ہم کہتے ہیں قوم کو پھر مار پڑ گئی، جب کسی گھر سے 18غریب بچے ایک ساتھ با ہر نکلتے ہیں تو ہم بے ساختہ کہتے ہیں قوم کے نو نہال آگئے اور یہ قوم کے نا م کو بے محل دہرانے کا فطری رد عمل ہےاگر سچ پوچھیں تو ہماری پا رلیمنٹ بھی قوم کی نمائندگی کے معیار پر پوری نہیں اتر تی، ملک کے 98فیصد لو گ غریب ، محنت کش ، مہذب اور شریف ہیں۔ پارلیمنٹ کے 1300 نما ئندوں میں اس طبقے سے تعلق رکھنے والوں کی تعداد کبھی دس بارہ سے زیا دہ نہیں ہو تی کیونکہ مو جودہ حالات میں ووٹ کے ذریعے صرف جا گیر دار اور سرمایہ دار ہی آگے آسکتے ہیں، جو دو فیصد کی نما ئندگی کر تے ہیں مزدوروں کا کوئی نما ئند ہ 50کروڑ روپے لگا کر اسمبلی میں نہیں آسکتا ، کسا نوں کا کوئی نما ئندہ 50کروڑ روپے خر چ کر کے اسمبلی میں آنے کی کو شش نہیں کر سکتا ‘اب دیکھتے ہیں کہ آنے والا وقت پا کستان کے لئے کیا تحفہ لیکر آئے گا؟ 8فروری 2024ء کے انتخا بات کے بعد ملک کا منظر نا مہ کیا ہو گا؟ اس پر پا کستانی عوام سے زیا دہ فکر غیر ملکیوں کو ہے غیر ملکیوں میں وہ چار مما لک نما یاں ہیں جن کو پا کستان کی جو ہری طاقت اور پا ک فو ج کی پیشہ ورانہ صلا حیت پسند نہیں ایسے مما لک نے اپنے خفیہ اداروں کا سارا زور پا کستان پر فو کس کیا ہوا ہے بعض مما لک نے سرما یہ بھی مختص کیا ہوا ہے تاکہ انتخا بات کے دوران اور انتخا بات کے بعد سارے نتا ئج ان کے حق میں بہتر ہوں اس کے مقا بلے میں ہماری سوچ اور فکر انفرادی مفادات کے گرد گھومتی ہے ہمارے سامنے ملک کا اجتما عی مفاد بھی نہیں ملک کے دشمنوں کی حکمت عملی بھی نہیں دشمن ملکوں کے خفیہ اداروں کی سر گر میوں سے آگا ہی بھی نہیں ہم آنکھیں بند کر کے نا معلوم کھا ئی کی طرف بڑھ رہے ہیں کھا ئی میں گر نے تک ہماری آنکھیں نہیں کھلیںگی ‘کا غذات نا مزد گی جمع کرنے کی آخری تاریخ گذر نے کے بعد جو منظر نا مہ دکھا یا جا رہا ہے وہ یہ ہے کہ آزاد امیدواروں میں اضا فہ ہوا 8فروری تک اگر یہی صورت حال رہی تو نتائج آنے کے بعد کسی بھی پارٹی کو واضح اکثریت نہیں ملے گی حکومت بنا نے کے لئے 2018ء کی طرح آزاد امید واروں کی بڑے پیمانے پر خرید و فروخت ہو گی ‘مخا لف پارٹیوں سے بھی لو گوں کو ادھر ا±دھر کیا جا ئے گا غیر فطری اور غیر سیا سی اتحاد بنوائے جا ئینگے 8فروری تک انتظار کیا گیا تو وقت ہاتھ سے نکل جا ئے گا اس لئے ابھی سے حا لات کو درست کرنے پر تو جہ دینے کی ضرورت ہے انگریزی کی ایک تر کیب ”لیول پلے انگ فیلڈ“ باربار استعمال ہو رہی ہے سیا سی جما عتیں بھی استعمال کر رہی ہیں حکومت بھی استعمال کر رہی ہے کیونکہ لیول پلے انگ فیلڈ کا مطلب کھلا میدان ہے کسی پا بندی کے بغیر سب کو یکساں مواقع دیئے گئے تو اس کو کھلا میدان کہا جا ئے گا یہ بات یا د رکھنی چاہئے کہ فافن، ٹرانسپیرنسی انٹر نیشنل، ہیو من رائٹس کمیشن اور دیگر بین ا لاقوامی تنظیمیں انتخا بات کی نگرانی کریں گی انتخابات شفاف نہ ہوئے تو ملک بھر میں احتجا ج ہو گا سوشل میڈیا پر واویلا ہو گا، آزاد ذرائع ابلا غ پر بھی شور شرابہ ہو گا‘ پہلے صرف ریڈیو پا کستان تھا دو شہروں میں اکیلے پی ٹی وی کی نشریات شروع ہوئی تھیں آبادی کے 80 فیصد حصے کو ٹیلیفون کی سہولت بھی میسر نہیں تھی۔
ماضی کی کسی طرح کی غلطیوں کو دہرا نا منا سب نہیں ہو گا مر حوم طارق عزیز نیلا م گھر میں آخری سوال پر کہتے تھے ”غلطی کی گنجا ئش نہیں“ 2024ءکے ملکی انتخا بات میں غلطی کی گنجا ئش نہیں آنے والا وقت بہت ظا لم ہے۔