جلے ہوئے زخم کا علا ج 

اس روز ہسپتال میں ایمرجنسی تھی بیک وقت چار جگہوں سے جلے ہوئے زخمیوں کو لا یاگیا تھا ہسپتال کے سربراہ نے مریضوں کا داخلہ بند کر دیا تھا لیکن 10گھنٹے یا 12گھنٹے پہلے جلے ہوئے زخموں کے ساتھ چیختے چلا تے مریضوں کو ہسپتال کے دروازے سے واپس کرنا ممکن نہیں تھا اگر چہ دو مریضوں کے داخلے کی گنجا ئش رہ گئی تھی مگر ہسپتال کے دروازے پر 24مریضوں کی ایمبو لینسیں آئی ہوئی تھےں مریض کراہ رہے تھے اور تیماردار مدد کےلئے پکار رہے تھے اس ہسپتال کا یہ پہلا دن نہیں تھا یہاں پر ہر روز اسی طرح کی صورتحال ہوتی ہے یہ خیبر پختونخوا کا واحد ہسپتال ہے جہاں جلے ہوئے زخمیوں کا علا ج ہوتا ہے اس ہسپتال کا نا م برن اینڈ پلا سٹک سر جری سنٹر ہے یہاں جلے ہوئے زخمیوں کا علا ج بھی ہوتا ہے دور دراز اضلا ع اور پڑوسی ملکوں سے آنے والے ڈاکٹر وں اور نر سوں کو جلے ہوئے زخمیوں کو ابتدائی طبی امداد کی تر بیت بھی فراہم کی جا تی ہے جلے ہوئے زخموں کے علا ج کی بات جہاں کی جا تی ہے وہاں تین بڑے مسائل سامنے آتے ہیں پہلا مسئلہ یہ ہے کہ جلے ہوئے مریض کو ایک گھنٹے کے اندر سپیشلائزڈ ہسپتال میں پہنچانا چاہئے یہ تب ممکن ہو گا جب مضا فا تی علا قوں میں برن
 سینٹر مو جو د ہوں دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ ہسپتال کا ہر ڈاکٹر اور ہر نرس یا ٹیکنیشن جلے ہوئے مریض کا علا ج نہیں کر سکتا یہ الگ سپیشلیٹی ہے اور بیحد اہم ہے اس کی با قاعدہ تر بیت ہو تی ہے اور تر بیت کے ساتھ سرٹیفیکیٹ بھی دیا جا تا ہے تیسرا مسئلہ یہ ہے کہ معا شرے میں سما جی کارکنوں، سیا سی کار کنوں اور ہسپتالوں کے عملہ کو جلے ہوئے مریض کے بارے میں مکمل آگاہی دینی چاہئے خدا نا خواستہ ایسا واقعہ ہو جا ئے تو سما جی اور سیا سی کار کنوں کو کیا کرنا چاہئے ہسپتال کے عملے کو فوری طور پر کس قسم کی ابتدائی طبی امداد کے لئے ہر وقت تیار اور مستعد رہنا چاہئے تر قی یا فتہ ملکوں میں لو گوں کے اندر اس قدر آگا ہی پھیلی ہوئی ہے کہ وہ ریشم، پلا سٹک اور جلد آگ پکڑنے والے کپڑے نہیں بنا تے اگر ایک آدھ کپڑا مو جود بھی ہو تو گھر کے اندر ایسے کپڑوں کو نہیں پہنا جا تا یہ ایسی احتیا طی تدبیر ہے جو آگ لگنے کی صورت میں نقصان کے امکانات کو کم سے کم کرنے میں مدد دیتی ہے متاثرہ مریض کے جسم کا 5فیصد یا 10فیصدجلا ہوا ہو تو اس کے بچنے کی امید کی جا سکتی ہے اگر جسم کا 30فیصد یا 40فیصد یا اس سے زیا دہ حصہ جلا ہوا ہو تو مریض کے بچنے کے مکانات بہت کم ہو تے ہیں خیبر پختونخوا کی تاریخ میں پہلی بار 2009میں جرمن حکومت، جرمن فاﺅنڈیشن اور Wishنا می تنظیم کے ذریعے صو بے کے 4ہسپتا لوں میں جلے ہوئے زخمیوں کےلئے سپیشلائزڈ سہو لیات کےساتھ برن، ٹرا ما اینڈ پلا سٹک سر جری کےلئے خصو صی مرا کز قائم کئے گئے اس طرح کے 3مرا کز پڑوسی ملک افغا نستان میں بھی قائم ہوئے تھے ان میں سے ہمارے ہاں پشاور کے مر کز صحت میں سہو لیات کے ساتھ افرادی قوت کی تر بیت کےلئے تما م سہو لیات فراہم کی گئیں ڈیرہ اسماعیل خان کے مر کز کو ایک مخیر شخصیت نے ڈھا ئی کروڑ روپے کی مشینری اور دیگر سامان خرید کر دیا چترال اور ہزارہ میں قائم مرا کز صحت 2013میں تعمیراتی کام کی تکمیل کے بعد بند پڑے ہیں ‘تکمیل کی سند متعلقہ شعبے میں جمع کی گئی
 تھی صوبائی حکومت میں اختیارات محکمے کے آفیسر وں سے لیکر ایم پی اے اور ایم این اے صاحبان کو دیدئیے گئے فنڈ بھی غیر متعلقہ لو گوں کو دیدئیے گئے اس لئے محکمہ بے دست وپا ہے جنکے پا س فنڈ اور اختیارہے ان کی مثال رہٹ کے بیل کی طرح ہے ارہٹ کا بیل ہانکنے کا انتظار کرتا ہانکانہ گیا تو رہٹ نہیں چلے گا بیل اپنی جگہ کھڑا رہے گا ہمارے لئے یہ بھی لمحہ فکریہ ہے کہ افغانستان میں برن اینڈ پلا سٹک سر جری کے مرا کز ٹھیک ٹھاک کام کر رہے ہیں خیبر پختونخوا حکومت نے ضلع چترال سمیت ان اہم مراکز صحت کو سہو لتیں نہیں دیں نگران حکومت کو وقت ضا ئع کئے بغیر برن اینڈ پلا سٹک سر جری کے مرا کز کو تمام مطلوبہ سہو لتیں فراہم کرنی چاہئیں نیز ایک اہم کام یہ ہے صوبے میں برن، ٹراما اینڈ پلا سٹک سر جری کے لئے خود مختار اتھارٹی قائم کر کے جلے ہوئے مریضوں کے علا ج اور ان کی بحا لی کا سارا کام مجوزہ اتھارٹی کے سپر د کیا جا ئے ‘یہ سپشیلائز ڈ طریقہ علاج ہے اس کا تمام کام خو د مختار اتھارٹی کے پاس ہوگا تو اس ناگہا نی آفت کے نقصانات کو کم سے کم کرنے میں مدد ملے گی ورنہ مو جود ہ ڈائریکٹر ڈاکٹر تحمید اللہ صاحب کی ریٹائرمنٹ کے بعد پشاور کا مر کز بھی بند ہو جا ئے گا۔