اسلام نے خاص طور پر عورت کو وہ اعلیٰ مقام اور حیثیت بخش دی کہ اس کے وجود کو رحمت کا نام دے دیا اور اس کے مقام کو زندہ درگور کرنے کی بجائے سانس کی ڈوری کے مستحکم کرنے کے ساتھ جوڑ دیا۔ اسلام نے عورت کو گھر کی زینت و زیبائش بنایا۔ آج ان عورتوں کو خراج تحسین پیش کرتی ہوں جنہوں نے پردے میں رہ کر بھی اپنے بھائیوں اور بیٹوں کی وہ تربیت کی کہ دنیا عش عش کر اٹھی۔ علامہ اقبال کی والدہ امام بی بی ہوں یا مولانا محمد علی جوہر اور مولانا شوکت علی کی والدہ بی اماں ہوں‘ بیگم محمد علی جوہر امجدی بیگم ہوں یا ہمارے عظیم قائد محترم کی بہن ڈاکٹر فاطمہ جناح یا پھر تحریک پاکستان کی ہراول دستہ وہ نامور مائیں جنہوں نے اپنے مجازی خداﺅں‘ اپنے بیٹوں اور اپنے بھائیوں کو قربانی اور لازوال حب الوطنی کے جذبے سے اس طرح سرشار کیا کہ ہمیں سرزمین پاکستان جیسی لازوال دولت نصیب ہوئی۔ پشاور شہر بے شمار دوسرے شہروں سے تعلیم اور زندگی کی جدید سہولتوں سے پیچھے رہا تھا لیکن تحریک پاکستان کی جدوجہد میں بھلا بیگم جسٹس قاضی میر احمد خان‘ بیگم زری سرفراز‘ بیگم سردار حیدر جعفر‘ مس سعیدہ اسلم شعاع‘ محترمہ سعیدہ واحد قاضی‘ بیگم سعیدہ محمد احمد‘ بیگم شیخ عبدالواحد‘ بیگم شیریں وہاب‘ محترمہ فاطمہ بیگم‘ محترمہ فہمیدہ اختر علی کوزئی‘ بیگم کمال الدین‘محترمہ ممتاز مجید‘ بیگم نذیر طلا محمد‘ محترمہ مائی ملنگنی‘ محترمہ جمیلہ شریف حسین‘ محترمہ بیگم غلام سرور‘ محترمہ بیگم حافظ میر احمد‘ محترمہ فہمیدہ رﺅف‘ محترمہ بیگم محمود شاہ اور محترمہ مریم سیٹھی اور بے شمار نام جن کی قربانیوں کو کیسے بھلایا جا سکتا ہے۔ ہماری نئی نسل پر ان کا قرض ہے اور وہ قرض ملک پاکستان اور خاک پاکستان سے محبت کرتے چمکایا جا سکتا ہے۔ عورت کا کردار آنے والی نسلوں کی کردار سازی میں ہم چاہیں بھی تو اوجھل نہیں کر سکتے‘ مرد گھر سے باہر کے محاذ پر اپنے خاندانوں کی بقاءاور کفالت کی جنگ میں
برسر پیکار ہوتا ہے ایسے میں ماں پر اپنی نسل کو سنوارنے‘ ایک اچھا انسان بنانے‘ ایک اچھا شہری بنانے‘ محب وطن بنانے‘ بہترین مسلمان بنانے میں نہایت ہی اہم ہوتا ہے‘ ہر کامیاب مرد کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے اور یہی عورت اگر خود اس خوبی اور مہارت سے مالا مال نہیں جو سنوارنے کے زمرے میں آتی ہے تو پھر یہی عورت مرد کی ناکامی کی بھی ذمہ دار ہوتی ہے۔ مذہب اسلام نے عورت کو جو حقوق دیئے ہیں ہم اپنے قوانین بنا کر ان کو ہمیشہ سلب کر
لیتے ہیں‘ ایک گھر کے اندر مرد ہی قانون بناتا ہے وہ چاہے تو عورت کو بھی عقل و شعور سے بھرپور ایک مخلوق سمجھ سکتا ہے‘ اس سے مشورہ لے سکتا ہے‘ اس کے مشورے کے ساتھ گھر کے معاملات چلا سکتا ہے‘ اس کو پسند ناپسند کا حق دے سکتا ہے‘ اس پر اعتماد اور بھروسے کا رشتہ استوار کر سکتا ہے‘ اس سے محبت کے خوبصورت جذبے کے ساتھ اپنی زندگی کو پربہار بنا سکتا ہے ورنہ اس کے برعکس بھی ہو سکتا ہے جیسے کہ ہمارے زیادہ تر خاندانوں میں ہوتا ہے اور ہو رہا ہے‘ مرد اپنے کئی روپ بدل کر اپنی زندگی گزارنے کو پسند کرتا ہے‘ وہ دفتر میں ایک سمجھدار انسان ہونے کا کردار ادا کرتا ہے‘ دوستوں کے ساتھ مخلص رشتہ نبھاتا ہے‘ رشتہ داروں کے ساتھ ان داتا بننے کی بھرپور کوشش کرتا ہے اور وہی مرد
اپنی ماں‘ اپنی بہن‘ اپنی بیوی اور اپنی بیٹی کے سامنے فرعون کا روپ دھار لیتا ہے اور وہ چار مجبور رشتے جو بظاہر ان کو وہ اپنی تحویل میں سمجھتا ہے ان سے وہی سلوک کرنے کی کوشش کرتا ہے جو واقعی جیل کی چار دیواری میں ایک جیلر اپنے قیدیوں کے ساتھ نبھاتا ہے‘ سفر ایک استعار ہے جب تک انسان سفر میں رہتا ہے وہ منزل سے دور ہوتا ہے اس میں ٹھہراﺅ‘ سکون اور سچی خوشی نہیں ہوتی‘ عورت بھی ازل سے ایسے ہی ایک سفر میں ہے‘ خدا نہ کرے کہ یہ سلسلہ ابد تک جاری رہے۔ عورت کی منزل کہاں ہے‘ اس کی منزل کب آئے گی‘ معاشرے میں بکھری ہوئی بے شمار کہانیاں جن کا مرکز ایک عورت ہی ہوتی ہے ہمیں یہ سوچنے پر مجبور کرتی ہیں کہ آخر عورت کب تک دکھ کے سفر میں سکون اور سچی خوشی کی تلاش میں سرگرداں پھرتی رہے گی۔ کیا عورت ہمارے معاشرے میں صرف غیرت کا نشان رہے گی‘ کیا کسی کا نام لے کر لوگ کاروکاری کے نام پر اس کو قتل کرتے رہیں گے‘ کبھی وسوسوں اور کبھی خدشات کی بھینٹ چڑھتی رہے گی‘ مردوں کی بنائی ہوئی زنجیریں کھولتے کھولتے اس کے ہاتھوں میں زخم کب تک رستے رہیں گے‘ اس کو ہم کب ایک انسان سمجھیں گے‘ اس طرح کے کئی سوالات ہمارے کمزور معاشروں میں پوچھے جاتے رہیں گے۔ عورت کو گاڑی کا دوسرا پہیہ نہیں اپنی زندگی کا ایک اہم حصہ سمجھ کر ہی ہم گھر اور اپنے پیارے خاندان کے امین بن سکتے ہیں‘ آپ بے شک اپنے دفتر میں اپنے بزنس میں‘ اپنے دوستوں میں‘ اپنے رشتہ داروں میں سخت انسان پکارے جائیں لیکن جب اپنے گھر کے دروازے کے اندر داخل ہوں تو اک مخلص شوہر‘ پیارا بھرا دل رکھنے والے باپ‘ ہمدرد ترین بیٹے‘ محبت بھرے دل کے بھائی بن کر اندر جائیں کہ آپ کو دیکھ کر چہرے خوشی سے کھلکھلا اٹھیں نہ کہ آپ کو دیکھ کر سب ادھر ادھر ہو کے چھپ جائیں۔