عجیب بچہ تھا‘ میں نے جلدی سے 10روپے کے چند نوٹ نکالے لیکن وہ کھڑا رہا‘ اس کے منہ سے رال بہہ رہی تھی‘ اس کی حالت ایک مریض کی سی لگ رہی تھی‘ پھٹے پرانے کپڑے پہنے ہوئے تھا‘ میں نے کبھی بھی اس کو اپنے محلے میں نہیں دیکھا تھا ورنہ تو سارے بچے آتے جاتے نہ صرف مجھے نظر آتے ہیں‘ سلام بھی کرتے ہیں اور اکثر میرے گھر میں لگے ہوئے درختوں کے پھل بھی لینے آ جاتے ہیں‘ شاید یہ بچہ پہاڑ سے نیچے جانے والے راستوں میں کسی گاﺅں کا تھا‘ اس لئے میرے لئے اجنبی تھا۔ اب مجھے اس پر بہت ترس آیا‘ اس نے وہ سارے نوٹ جیب میں ڈال لئے تھے لیکن جانے کا نام نہیں لے رہا تھا‘ نہ جانے وہ کیا کہنا چاہ رہا تھا‘ شاید بیمار تھا شاید بول نہیں سکتا‘ بہت سی باتیں میرے دل و دماغ میں آنے لگیں لیکن وہ اتنا چھوٹا تھا کہ کسی قسم کا برا خیال میرے ذہن میں نہیں آیا جیسے تخریب کاری وغیرہ۔ اب کہ میں نے اس کو بہت ہی پیار سے جانے کیلئے کہا اور وہ واقعی چلا گیا‘ کتنی دیر میں اس کے بارے میں سوچتی رہی کہ یہ خوبصورت شکل و صورت والا بیمار بچہ کس کی ذمہ داری ہے؟ معاشرے کی‘ ماں باپ کی‘ حکومت کی۔ مجھے یاد ہے کینیڈا میں انپے کسی بیمار بچے کو ڈاکٹر کے پاس دیر سے لے جانے کو والدین کا بچے کو نظر انداز کرنا کہلاتا ہے اور اس کو پہلے عدالت اور پھر جیل جا کر اس کا خمیازہ بھگتنا پڑتا ہے۔ ایک سکھ فیملی کو میں جانتی ہوں جس کی ماں سے غلطی سے گرم ابلتے ہوئے پانی کا نلکا اس وقت کھل گیا جب وہ بچے کو نہلا رہی تھی‘ بچہ معمولی سا جل گیا‘ سکھ صاحب دوڑتے ہوئے ہسپتال پہنچے‘ ڈاکٹر نے پولیس کال کر لی‘ سکھ نے بیوی کو فون کیا کہ ہسپتال آ جاﺅ جیل جانا ہے۔ یہ حقیقت ہے مغربی ممالک میں بچے کی بیماری کیلئے اس کو نظر انداز کرنے کیلئے اس کی ضرورتیں پوری نہ کرنے کے ذمہ دار والدین ہوتے ہیں اور اس کیلئے اس کو جواب دہ ہونا پڑتا ہے۔ معمولی سے زکام‘ بخار میں بچے کو سکول بھیج دیا جائے تو سکول سے ماں باپ کو فون آ جاتا ہے کہ اس کو آرام کی ضرورت ہے‘ تعلیم ضروری نہیں صحت ضروری ہے‘ نہ جانے ہم کس معاشرے میں رہتے ہیں۔ یہ تمام باتیں سوچتے سوچتے میں گھر کے کاموں میں
مصروف ہوئی‘ صبح گھنٹی کی آواز پر آنکھ کھلی دیکھا تو سویپر تھا‘ روز ہی ہوتا ہے‘ حسب معمول سوزوکی لئے کھڑا تھا‘ مغرب کی طرح پاکستان میں تبدیلی کچھ اس طرح آئی ہے کہ اب کوڑا لینے والے سوزوکیوں میں آنے لگے ہیں‘ آج بھی اس کا سات سالہ بیٹا ڈرائیونگ سیٹ سنبھالے بیٹھا تھا‘ میں نے اس کے باپ شیر خان سے کہا کہ آج تم نے پھر اس کو سٹیئرنگ دے رکھا ہے‘ کہنے لگا باجی یہ نہیں مانتا‘ بس کہتا ہے ڈرائیونگ کرنی ہے‘ اف خدایا آپ سوچیں سات سال کا بچہ ابھی اس کے ہاتھ پاﺅں کھیلنے کیلئے ہیں وہ بریکوں پر پاﺅں بھی پوری طرح نہیں جما سکتا وہ مزے سے گاڑی چلا
رہا ہے‘ قانون ‘والدین‘ معاشرہ سب سو گئے ہیں کوئی پوچھنے والا نہیں۔ میں نے کہا شیر خان یہ سکول کیوں نہیں جاتا‘ کہنے لگا باجی اس سے استاد بھی تنگ ہیں انہوں نے اس کو پڑھانا چھوڑ دیا ہے‘ شرارتیں کرتا ہے اور وہ شرارتی میری اپنے باپ کے ساتھ گفتگو سن کر مسلسل مسکرا رہا تھا‘ وہ ذہین بچہ تھا ڈرائیونگ اس نے سیکھ لی تھی سکول میں بھی وہ ذہانت کی وجہ سے شرارتوں میں لگا رہتا ہو گا‘ ایک تو والدین کا اس کی تعلیم کی طرف سے آنکھیں بند کر لینا اور پھر واہ رے اساتذہ‘ کہ بجائے اس کے آپ بچے پر توجہ دیں اس سے اس کی انرجی کے مطابق اس کی شرارتوں کو آرٹ کی طرف تعلیمی مشاغل کی طرف موڑ دیں آپ کہہ رہے ہیں اس کی شرارتیں زیادہ ہیں۔ شیر خان کا بچہ اب بھی ذہنی طور پر بڑا ہے اور اگلے چار پانچ سال میں وہ بلوغت کے اعلیٰ درجے تک پہنچ جائے گا کیا اس کا مقدر ان پڑھ رہ کر کچرا اور کوڑا اکٹھے کرنے تک محدود ہو کر رہ جائے گا‘ میں بے بس
ہوں کوڑے والا کب کا جا چکا ہے میں اندر آ کر سر پکڑ کر بیٹھ گئی ہوں کون ذمہ دار ہے ان سب باتوں کا جواب میرے پاس ہے بھی اور نہیں بھی ہے۔ راستے جاتے ہوئے میں جب بھی ننھے بچوں کو گلیوں میں کھیلتا ہوا دیکھتی ہوں یوں میں تفریحاً ان کو ہاتھ ہلا دیتی ہوں جواب میں وہ بھی خوش ہوتے ہیں‘ آج بھی ایسا ہی ہوا کچھ غریب ترین بچے گلی میں کھیل میں مشغول تھے‘ میں نے ان کو ہاتھ ہلا دیا یقین کریں ایک معصوم سا بچہ تو ایسے خوشی سے بے قابو نہیں ہو گیا کتنی دیر تک دور تک مجھے ہاتھ ہلاتا رہا‘ معصوم فرشتے‘ معصوم بچے ہم کس طرح ان کو ضائع کرتے ہیں‘ ان کا استحصال کرتے ہیں ‘ان سے گاڑیاں چمکاتے ہیں‘ اپنے بوٹ پالش کرواتے ہیں‘ اپنے گھروں کے کوڑے اور گرد و غبار صاف کرواتے ہیں‘ اپنے پاﺅں ان کے ننھے ہاتھوں سے دبواتے ہیں اور نہ جانے کیا کیا مشقت کہ لکھتے ہوئے میرے الفاظ بھی شرمندہ ہو جائیں‘ ہم بے حس لوگ ہیں۔ ابھی پشاور میں چند روز رہی تو ایک فلیٹ بلڈنگ جس میں سات آٹھ فلیٹس بنے ہوئے تھے جب ان کی سیڑھیاں چڑھتی تھی تو ناک پر چادر رکھ لیتی تھی‘ بدبو‘ گند‘ بکھرے ہوئے ریپر‘ مٹی سے اٹی ہوئی سیڑھیاں‘ ہر فلیٹ کا مکین اس کی صفائی دوسرے کی ذمہ داری قرار دیتا ہو گا‘ وہاں بھی چند بچے ایک ایک فلیٹ کا دروازہ کھٹکھٹاتے ہوئے کوڑا اکٹھا کرتے تھے‘ میں نے بہن سے پوچھا کہ یہ کتنے پیسے لیتے ہیں کہنے لگی کہ یہ مفت لے جاتے ہیں کہیں سب کوڑا اکٹھا کرتے ہیں اور پھر ان کا مالک بیچتا ہے وہی ان کو پیسے دیتا ہے۔ نہایت خوبصورت‘ صحت مند‘ سکول جانے کے قابل‘ میں نے ان کو کچھ اجرت دے کر فلیٹ بلڈنگ کی سیڑھیاں صاف کروائیں‘ مجھے بہت ندامت بھی ہوئی لیکن وہاں آدمیوں کی آمدورفت ایسی تھی کہ میں خود یہ کام نہیں کر سکتی تھی50 روپے کی اجرت پر انہوں نے صفائی کی جیسے اقلیم کی دولت ان کے ہاتھ لگ گئی‘ کیا تعلیم ان کا حق نہیں ہے کیا کھیل کا میدان ان کا حق نہیں ہے‘ کون ان سب کوتاہیوں کا ذمہ دار ہے‘ کون اپنی نسلوں کو گمراہ‘ جاہل اور بیمار کرنے کے درپے ہیں‘ کیا ہم انسان بھی ہیں اور پھر انسانیت کے دعویدار بھی ہیں؟