پشاور کے علاقے صدر میں واقع موبائل پلازہ میں گزشتہ رات لگنے والی خوفناک آگ پر تاحال قابو نہ پایا جاسکا۔
آگ نے پورے پلازہ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے، اس وقت 130 سے زیادہ فائرفائٹرز اور 26 فائروہیکلز، 4 واٹر باؤزرز آگ بجھانے کے عمل میں مصروف ہیں۔
ترجمان ریسکیو 1122 بلال احمد فیضی کا کہنا ہے کہ آگ بجھانے کے لئے پشاور، مردان، نوشہرہ، چارسدہ اور خیبر سے فائر وہیکلز اور فائر فائٹرز کو طلب کیا گیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ موبائل سنٹر میں موجود بیٹریوں، یو پی ایس اور موبائل ایسسیریز پھٹنے سے آگ کی شدت بڑھی۔ آگ کی لپیٹ میں 60 سے زائد دکانیں اور درجنوں کاؤنٹرز آگئے ہیں۔
آگ کی شدت میں اضافے کے باعث فائر فائٹرز کو مشکلات کا سامنا ہے، جبکہ کروڑوں روپے کا نقصان ہوچکا ہے۔
آگ پر قابو پانے کیلئے ریسیکو اہلکاروں کے ساتھ پاک فوج کے جوان بھی موجود ہیں، جبکہ 70 فیصد آگ بجھا دی گئی ہے۔
کور کمانڈر پشاور لیفٹننٹ جنرل حسن اظہر حیات بھی پلازہ کے دورے پر پہنچے اور آگ پر قابو پانے کے عمل کا جائزہ لیا۔
اس موقع پر ان کے ساتھ ڈی جی ریسکیو ڈاکٹر خطیر احمد بھی موجود تھے۔
متاثرہ عمارت کے قریب گھروں کو خالی کرا لیا گیا ہے۔
بلال احمد فیضی نے بتایا کہ ٹائم سنٹر میں 4 افراد سامان نکالنے کے لیے گئے اور پھنس گئے جنہیں نکال لیا گیا ہے۔
فائر بریگیڈ حکام کا کہنا ہے کہ پانچ افراد کو ریسکیو کرلیا گیا ہے، آگ بجھانے میں وقت لگ سکتا ہے۔
ریسکیو1122 کے ترجمان بلال احمد فیضی کا کہنا ہے کہ رات کے دو بجے سے موبائل پلازہ میں آگ بجھانے کا عمل جاری ہے۔
ان کا کہناتھا کہ یہ ایک مشکل آپریشن ہے کیونکہ پلازہ کا صرف ایک داخلی دروازہ ہے اور اندر 200 کے قریب دکانیں ہیں اور اندر جانے میں مشکلات پیش آ رہی ہیں۔
بلال فیضی نے کہا کہ دکانوں میں موبائل بیٹریاں موجود ہیں، جب ایک جگہ آگ بجھائی جاتی ہے تو دوسری جگہ بیٹریوں کی وجہ سے دوبارہ آگ بھڑک اٹھتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ بیٹریز پھٹنے کے باعث کسی کو اندر جانے کی اجازت نہیں دے سکتے، وقفے وقفے سے بیٹریز پھٹ رہی ہیں جس سے نقصان کا خدشہ ہے، آگ پر مکمل قابو پانے میں وقت لگے گا۔
مارکیٹ کے ایک دکاندار شاہ فیصل نے آج نیوز سے گفتگو میں کہا کہ رات ایک بجے اطلاع ملی کہ آگ لگی ہے، جب ہم پہنچے تو آگ نے مارکیٹ کو لپیٹ میں لے لیا تھا، آگ کس وجہ سے لگی یہ ہمیں بھی معلوم نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ مارکیٹ منی چائنہ کے نام سے مشہور ہے جہاں کروڑوں اربوں کا نقصان ہوچکا ہے۔