کچے راستے اب پکی سڑکوں میں تبدیل ہو گئے ہیں

ہم اکثر ہی اپنے بچوں کو چڑیا گھر اس لئے لے جاتے ہیں کہ نہ صرف ان کو دیکھ کر خوش ہوں بلکہ جانوروں کی عادات کو بھی جانیں اور ان کو قریب سے دیکھیں‘ پرندوں کو اپنے ہاتھ سے دانہ کھلائیں۔ جب میرے بچے چڑیا گھر کے ایک لمبے چکر کے بعد موروں کے پنجرے کے پاس آ جاتے تھے تو ان زیادہ خوبصورت مور دیکھ کر خوش بھی ہوتے تھے اور حیران بھی اور ان کے پورے پر پھیلانے کا کتنی ہی دیر انتظار کرتے‘ جب وہ پر پھیلا لیتا تو تالیاں بجا کر باقی بچوں کے ساتھ ان کی اس ادا کو بڑا سراہتے۔ سب سے زیادہ پسندیدہ جانور چڑیا گھر میں ہر بچے کیلئے بندر ہوتا ہے بندروں کی چالاکیاں‘ قلابازیاں کھا کر بچوںکو محظوظ کرنا نہ صرف بچوں کو بلکہ بڑوں کو بھی بہت پسند ہوتا تھا‘ چڑیا گھر کے بالکل ساتھ جاپانی پارک آج بھی موجود ہے اور ہمیشہ میری کوشش ہوتی کہ میں ہفتہ اتوار کے علاوہ عام دنوں میں ان جگہوں پر جاﺅں اس طرح رش نہ ہونے کے باعث قدرت کو قریب سے دیکھنے کے وافر مواقع میسر آ جاتے‘ بچے کھیلتے رہتے اور میں گھوم پھر کر پارک کی تمام سہولتوں‘ سرسبز روشوں اور اونچے درختوں کو دیکھتی رہتی۔ ایک دفعہ احمد فراز کو میں نے اسی پارک کے ایک کنج میں اپنی کسی کولیگ کے ساتھ بیٹھے ہوئے دیکھا تھا تو میں خوش ہوئی تھی ایک بڑے شاعر کو قریب سے دیکھا ہے‘ جب ریما اور شان بالکل نئے نئے فلمی دنیا میں داخل ہوئے تھے تو ان کا فلمی یونٹ بھی فلم بلندی کی شوٹنگ کیلئے وہاں آ گیا تھا۔ نیلو صاحبہ اور دوسرے تمام لوگ سارا دن پلے لینڈ میں گانوں 
کی پروڈکشن میں مصروف رہے‘ اس دن پارک میں میرے اور بچوں کے علاوہ کوئی بھی نہ تھا‘ بعد میں یہ جوڑی بہت مشہور ہوئی۔ اسی طرح اسلام آباد کی کسی مارکیٹ‘ کسی پارک میں بھی خاص لوگ آیا کرتے تھے‘ گاڑیاں بھی کم لوگوں کے پاس ہوتی تھیں اور لوگ سرشام سو بھی جایا کرتے تھے بلکہ اسلام آباد کو شہر خموشاں بھی کہا جاتا تھا۔ سپر اور جناح سپر مارکیٹیں اس شہر کی شان اور بان ہوتی تھیں لوگ آتے تھے گھنٹوں گھومتے تھے ایک دوسرے کو پہچان لیتے تھے‘ رمضان میں تو سحری تک یہ شور شرابہ جاری رہتا تھا لیکن عید پر یہ شہر ویران صحرا کا سماں پیش کرتا تھا۔ میں روزمرہ کی ضروری اشیاءدس پندرہ دنوں کیلئے سٹاک کرتی تھی کہ پشاور سے واپس آﺅں گی تو سب دکانیں بند ہوں گی‘ دکانیں اور مارکیٹ عید کے بعد کئی روز تک بند رہتی تھیں کیونکہ سارا شہر ویران ہو جاتا تھا اور لوگ بھرپور چھٹی گزارنے کے بعد واپس اپنے دفاتر میں آتے تھے۔ یہ خوبصورت زمانہ تھا جب اسلام آباد میں کنسٹرکشن زوروں پر تھی یہاں کے کئی دفاتر میرے سامنے شروع ہوئے اور میں نے ان کو بتدریج بنتے ہوئے 
دیکھا‘ یہی حال سڑکوں کا تھا کچی پکی پگڈنڈیاں‘ خوبصورت رستے‘ بہت سے شارٹ کٹس سے نکل کر منزل تک پہنچ جایا کرتے تھے‘ سی ڈی اے سیکٹر اناﺅنس کرتا تھا اور پھر سرکاری ملازمین‘ عام لوگ اپنے اپنے کوٹے کے حساب سے فارم بھر بھر کر ان سیکٹرز کے گھر خریدنے کی لائن میں لگ جاتے تھے پھر سی ڈی اے ان کو ایک خط کے ذریعے گھر بنانے کے احکامات جاری کرتا تھا۔ سڑکیں اس وقت تک سی ڈی اے نہیں بناتا تھا جب تک بجلی‘ سوئی گیس نہیں آ جاتی تھی اور تمام گھر بھی مکمل نہیں ہو جاتے تھے‘ خوبصورت پکی گلیوں کو دیکھ کر پتہ چلتا تھا کہ زندگی کی تمام سہولتیں اس سیکٹر میں آ گئی ہیں‘ قواعد و ضوابط سخت ہوتے تھے۔ اسلام آباد کے پلاٹ بہت شروع 1960-70ءمیں تو ہزاروں روپے کے ہوتے تھے بعد کے آنے والے سالوں میں کچھ لاکھ کے ہوتے تھے اور وہ بھی قسطوں میں ادائیگی کرنا ہوتی تھی۔ 1990ءکی دہائی کے آخر تک ڈبل سٹوری گھروں کی قیمتیں بھی 4 لاکھ سے 10 لاکھ تک تھیں اسی طرح کمرشل جائیدادیں بھی زیادہ مہنگی نہ تھیں‘ سمجھدار لوگوں نے اپنے آنے والی نسلوں کیلئے بڑی خوبصورت مارکیٹوں‘ بلیو ایریا اور ہر سیکٹر میں بننے والے کمرشل یونٹس کو خریدا‘ آج ان کی قیمت کروڑوں میں ہے اور کرائے لاکھوں میں ہیں۔ آج جو سیکٹرز یورپ کے گھروں اور سڑکوں کو بھی پیچھے چھوڑتے ہیں وہ سب 
1990ءکی دہائی کے آخر تک جنگل ہوتے تھے‘ پھر اسلام آباد نے ترقی کی کینچلی بدلی اور سی ڈی اے کی طرف سے سیکٹرز کھلنے کے سرکاری اعلان بند کر دیئے گئے۔ اب فائر بریگیڈ کے ایک بہت بڑے ہال میں تمام پلاٹ اور کمرشل یونٹس سی ڈی اے بولی کے ذریعے پیش کرنے لگا جس میں پہلے پہل تو لوگ تفریحاً شامل ہوتے تھے بعد میں سی ڈی اے نے صرف 10 ہزار ٹوکن منی جمع کرانے والے کو ہی بیٹھنے کا حق دیا‘ اس طرح ماحول خراب کرنے والے لوگوں کا داخلہ خود بخود کم ہوتا گیا‘ اس طریقہ کار کے ذریعے بھی ایک ایک کنال کے پلاٹ بھی 18 سے 25 لاکھ تک فروخت ہوئے جو اس وقت کے مہنگے ترین پلاٹ تھے جو بھی یہ قیمت سنتا تھا حیرت زدہ رہ جاتا تھا کہ اسلام آباد اس قدر مہنگا ہو گیا ہے لیکن زمانے کی دوڑ بہت تیز ہوئی ہے اور اسلام آباد کو تو زمانے نے اس تیزی کے ساتھ آگے کی طرف دوڑایا کہ اب صرف پانچ مرلے کا گھر دو سے تین کروڑ روپے کا ہے‘ کرایہ بعض سیکٹروں میں ڈالرز میں لیا جاتا ہے‘ عام سے گھر کا کرایہ چالیس سے پچاس ہزار روپے تک ہے جو دو دو‘ تین تین کنال کے گھر ہیں ان کے کرائے لاکھوں میں ہیں‘ اب سرکاری سیکٹرز کھلنا بندہو گئے ہیں بولی لگا کر بھی خرید و فروخت کب کی بند ہو چکی ہے اب لوگ براہ راست گھروں اور پلاٹوں کی قیمت کروڑوں میں لگاتے ہیں‘ سرکاری ملازمین کیلئے تو یہاں دو مرلے جگہ خریدنا بھی ناممکن ہو کر رہ گیا ہے‘ کچے راستوں اور سرسبز و شاداب شہر پکی سڑکوں اور اونچی بلڈنگز میں تبدیل ہو چکا ہے۔