تاریخ کے صفحات میں کچھ لوگ بڑے نمایاں ہوتے ہیں‘ چاہنے کے باوجود بھی ان کے نام کو اگلی صفوں سے پیچھے نہیں کیا جا سکتا‘ ان بڑے سیاستدانوں میں ایک نام ونسٹن اسپنسر چرچل کا بھی ہے جس کو دنیا ونسٹن چرچل یا صرف چرچل کہہ کر پکارتی ہے‘ سیاستدان کے طور پر اس کے کارنامے بہت زیادہ ہیں‘ وہ لارڈ رالڈولف چرچل کے گھر میں بلین ہائیم محل آکسفورڈ شائر میں پیدا ہوا‘ یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ اس وقت برطانیہ کے بڑے خاندان کا حصہ تھا‘ وہ صرف سیاستدان نہ تھا وہ بہت بڑا صحافی اور اتنا ہی بڑا لکھاری یا مصنف بن کر دنیا کے سامنے آیا‘ صرف سات سال کی عمر میں اس کو بورڈنگ سکول میں بھجوا دیا گیا‘ وہ اگرچہ ماں باپ سے دور سکول سے نفرت کرتا تھا لیکن بہرحال اس کو وہاں رہنا تھا اور تعلیم حاصل کرنے کے ساتھ ساتھ اور بہت کچھ سیکھنا تھا‘ اسکے مضامین میں تاریخ اورجغرافیہ نمایاں تھے۔ وائس ہیڈ ماسٹر نے اس کی ماں کو شکایت کرتے ہوئے لکھا کہ وہ لاپرواہ ہے‘ وقت کی پابندی نہیں کرتا اور ہر کام میںغیر ذمہ دار ہے‘ شاید ہیڈ ماسٹر کو اس بات کا ادراک بھی نہیں تھا کہ یہ بچہ بڑا ہو کر برطانیہ کو ایک بڑا نام دینے والاہے۔ ونسٹن چرچل کی ذاتی زندگی تنوعات سے بھری ہوئی ہے‘ اپنے باپ سے اس کے تعلقات مشکل سے ہی اچھے تھے لیکن ان کی موت کے بعد اس نے پوری ذمہ داری سے اپنے راستے متعین کئے تاکہ وہ باپ کی روح کے
سامنے ایک ناکام انسان کے طور پر کھڑا نہ ہو۔ وہ فوج میں نیوی کے افسر کے طور پر متعین ہوا‘ اس سے پہلے اپنی فوجی تربیت مکمل کرنے کے بعد ونسٹن چرچل نے صرف 21 سال کی عمر میں اپنا فوجی کیریئر شروع کیا۔ چرچل کے اندر ایک بڑا صحافی چھپا ہوا تھا وہ زیادہ دیر تک فوج میں نہ رہ سکا جب اس نے سنا کہ ہندوستان میں باغیوں کے خلاف برٹش آرمی بہت بڑا منصوبہ بنا رہی ہے تو اس منصوبہ بندی کے افسر نے اس سے وعدہ کیا کہ وہ چرچل اگلے مشن کے لئے ہندوستان بھیجے گا۔ ونسٹن چرچل ہندوستان میں شمال مغربی سرحدی صوبے میں آیا اپنی رجمنٹ سے چھٹی کی استدعا کی اور اس مہم جوئی کو صحافی کے طور پر نبھانے پر آمادگی ظاہر کی کیونکہ وہ فوجی یا سیاستدان سے زیادہ لکھاری تھا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اس نے اس مہم جوئی کے بعد اپنی پہلی کتاب لکھی ”دی سٹوری آف ملاکنڈ فیلڈ فورس“ اس کتاب کو برطانیہ میں بہت زیادہ سراہا گیا یہاں تک کہ پرنس آف ویلز نے اس کتاب کی بے حد
تعریف کی‘ پرنس آف ویلز بعد میں بادشاہ بنے اور ایڈورڈ ششم کے طور پر برطانیہ کے شاہی تخت پر بیٹھے۔ ونسٹن چرچل کو اپنے آپ کو مشہور کرنے کا بے انتہا شوق تھا‘ وہ فوج کی مہم جوئیوں میں حصہ لینے اور بعد میں ان کے بارے میں لکھنے کو ہمیشہ ترجیح دیتا تھا‘ ونسٹن چرچل نے مصر‘ قاہرہ‘ سوڈان میں بھی آرمی مہم جوئی کی اور بعد میں ”دی ریور وار“ کے نام سے کتاب لکھی‘ دریائے نیل کے آس پاس کے ممالک کی کہانی اس کتاب میں موجود ہے۔ ونسٹن چرچل جنوبی افریقہ میں چھ مہینے رہا‘ یہاں اس نے صرف صحافی کے طور پر کام کیا اور ساتھ ساتھ اپنی فوجی ذمہ داریاں بھی نبھائیں‘ اس نے موت کو بڑے قریب سے دیکھا تھا کئی بار وہ موت سے بال بال بچا۔جنوبی افریقہ سے واپسی پر اس نے دو کتابیں تحریر کیں Boen War پارٹ I اور پارٹ II اور اب وہ برطانیہ‘ کینیڈا اور امریکہ میں جنگی مہموں پر لیکچرز کے لئے بلایا جانے لگا۔ ونسٹن چرچل سیاستدان کے طور پر کام کرنے کی بڑی خواہش رکھتا تھا اس نے جنرل الیکشن میں حصہ لیا اور بڑے کم مارجن سے سیٹ جیت لی اور پارلیمنٹ کا ممبر بن گیا‘ چرچل کنزرویٹو پارٹی کا ممبر تھا جو اس کے والد کی پارٹی تھی لیکن بہت جلد اس نے یہ پارٹی چھوڑ دی اور لیبر پارٹی میں شامل ہو گیا اور اپنے تمام
دوست احباب کی لعن طعن کا شکار ہوا۔ 1906ءمیں اس نے اپنے باپ کی سوانح عمری لکھی اور شائع کروائی‘ اسی سال وہ جونیئر وزیر کے طور پر تعینات ہوا‘ اس وقت برطانیہ کا جھنڈا دنیا کے ہر ملک میں لہرا رہا تھا۔ چرچل کی تقریریں اور انگلیوں سے بنایا ہوا وی کا نشان عوام میں بہت مقبول ہوا۔ ونسٹن چرچل نے پہلی جنگ عظیم پر اور دوسری جنگ عظیم پر بھی کئی کئی جلدوں پر مشتمل کتابیں لکھیں‘ ملکہ برطانیہ نے چرچل کو ”سر“ کا خطاب دیا‘ 80 سال کی عمر میں اس نے سیاست چھوڑ دینے کا فیصلہ کیا‘ اس کی صحت مسلسل کام سے خراب ہو چکی تھی‘ کئی بار نمونیے کے حملے ہوئے‘ دل کے اٹیک ہوئے‘ معذور ہوئے لیکن اپنی قوت ارادی کی بناءپر ہر بار اپنے آپ کو واپس زندگی کی طرف واپس لے آیا۔ ونسٹن چرچل کو نوبل پرائز ملا جو اس کی بیوی وصول کرنے کے لئے گئی۔ وہ ایک ایسی شخصیت تھا جو اچھی اور بری دونوں کوالٹیز کی وجہ سے مشہور ہوا‘ اخباروں نے ہمیشہ اس کے کارٹونز چھاپے‘ اس کی زندگی پر اتنا کچھ لکھا گیا کہ کتابیں بھری پڑی ہیں‘ اس نے خود اتنا لکھا کہ آج وہ کتب تاریخ کے اہم حصے کے طور پر جانی جاتی ہیں‘ اس کے مجسمے برطانیہ اور دنیا کے ہر ملک میں نمایاں طور پر لگائے گئے‘ اس کی آخری رسومات میں ملکہ برطانیہ خود شریک ہوئیں‘ دو لاکھ لوگوں نے جنازے میں شرکت کی اور لاکھوں لوگوں نے ٹیلی ویژن پر اس کی آخری رسومات دیکھیں۔