امریکہ پر یہودیوں کی گرفت 

 اب الیکشن کو چند ہی دن باقی رہ گئے ہیں ثابت ہو گیا ہے کہ آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل درآمد کرنے کے سواحکومت وقت کے پاس کوئی چارہ ہی نظر نہیں آتا جب ہی تو وہ وقتاً فوقتاً اشیائے صرف کی قیمتوں میں اضافہ کرتی آ رہی ہے کہ جس سے اس ملک کے عوام کی ہڈیوں میں جو گودا بچا تھا وہ بھی نچوڑا جا چکا ہے‘ پتہ نہیں کہ الیکشن کے نتیجے میں جو حکمران بھی عنان حکومت سمبھالیں گے کیا وہ اس ملک کو اس معاشی سیاسی اور انتظامی بحرانوں کی دلدل سے باہر نکال بھی پائیں گے یا نہیں کہ جن کاوہ شکار ہے ‘ صرف خدا ہی جانتا ہے کہ وطن عزیز میں عام آدمی کی زندگی کب سنورے گی ‘ ہر سیاسی جماعت میں ایسے تھنک ٹینک موجود ہیں جومالی امور پر دسترس رکھتے ہیں ان کو چاہیے تھا کہ وہ اپنی اپنی پارٹی کے الیکشن کے منشور میں قوم کو بلیک اینڈ وائٹ میں اب تک بتا چکے ہوتے کہ وہ ملک کی معشیت کا پہیہ کیسے اور کتنے عرصے میں پٹڑی پر چڑھا پائیں گے اور آئی ایم ایف اور دیگر ذرائع سے قرضے لئے بغیر وہ صرف ملکی وسائل سے کس طرح امور مملکت چلائیں گے اور عوام کے فلاحی منصوبوں پر عمل درآمد کیسے کریں گے ۔افسوس سے لکھنا پڑھتا ہے کہ اس ضمن میں کسی بھی سیاسی پارٹی نے اپنے منشور میں کوئی ٹھوس بات درج نہیں کی اور محض لفاظی کا سہارا لیا ہے ضروری تھا کہ کوئی نہ کوئی ٹیلی ویژن چینل اس مسئلے پر ملک میں موجود ہر مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے ماہرین معشیت کو ہر سیاسی پارٹی کے قائد کے رو برو گول میز پر بٹھاتا اور ایک براہ راست شو میں ان سے سوالات کے ذریعے یہ جاننے کے لئے انہیں ٹٹولتا کہ آخر انہوں نے اس ضمن میں کوئی ہوم ورک بھی کیا ہے یا ماضی کی طرح اب بھی وہ عوام کو وعدہ فردا پر ٹالتے رہیں گے اور صرف بلند بانگ دعوﺅں اور لفاظی کے ذریعے عوام کو صرف سبز باغ ہی دکھاتے رہیں گے ۔یہ خبر عالمی امن کیلے تشویشناک ہے کہ بہت جلد شام اور عراق میں ایرانی اہداف پر آئندہ چند دنوں میں امریکہ حملہ کرنے والا ہے‘ ان حملوں کا شدید رد عمل آ ئے گا اور پہلے سے انتشار میں مبتلا مشرق وسطیٰ مزید انتشار کا شکار ہو جائے گا‘ دراصل امریکہ کے ارباب بست و کشاد امریکہ میں مقیم یہودیوں کے اس قدر تابع ہیں کہ ان کے ہر اقدام پر اسرائیل کی چھاپ صاف نظر آتی ہے۔ وفاقی کابینہ نے 13لاکھ غیر قانونی مہاجرین کے قیام میں توسیع کا جو فیصلہ کیا ہے اس پر کئی سوالات اٹھ رہے ہیں جن کے وزارت داخلہ کو فوراً سے پیشتر جوابات دینا ضروری ہیں اس قسم کی آنکھ مچولی عرصہ دراز سے کھیلی جا رہی ہے‘ پہلے ارباب اختیار ان کی واپسی کی ایک تاریخ مقرر کر دیتے ہیں جو بعد میں بدل دی جاتی ہے جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ اب جب بھی کبھی ان کی واپسی کی کوئی تاریخ کا اعلان کیا جاتا ہے تو اس پر کوئی یقین نہیں کرتا اب دیکھئے نا سابق وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے کچھ عرصہ پہلے ایک دلیرانہ اور حقیقت پسندانہ فیصلہ کیا تھا کہ پاکستان میں بغیر ویزا اور پاسپورٹ کوئی غیر ملکی داخل نہیں ہو سکے گا۔قومی ائر لائنز کی نجکاری ایک تکلیف دہ بات ہے ‘خصوصاً ان لوگوں کے لئے کہ جنہوں نے اس کے اچھے دن بھی دیکھے تھے کہ جب وہ دنیا بھر میں وطن عزیز کی پہچان تھی جب اس کا شمار دنیا کی پہلی چھ ائر لائنز میں ہوتا تھا ائر مارشل اصغر خان اور ائر مارشل نور خان نے بہت زیادہ محنت کی تھی یہ ان دونوں کی ذاتی کاوش کا نتیجہ تھا ‘کاش کہ ان کے جانے کے بعد قومی ائر لائنز کو ان جیسی قائدانہ صلاحیت والے چیئر مین ملتے تو اس کو یہ دن دیکھنے نہ پڑتے کہ جن کا آج اس کو سامنا ہے ۔ اگر آپ ملک میں رواں الیکشن مہم میں مختلف سیاسی جماعتوں کی طرف سے منعقد ہونے والے جلسوں اور کارنر میٹنگز میں سیاسی لیڈروں کی طرف سے ہونے والی تقاریر پر ایک طائرانہ نظر ڈالیں تو ان میں ایک قدر مشترک آپ کو ضرور نظر آئے گی اور وہ یہ کہ ہر لیڈر نے یہ کہا ہے کہ اس کی پارٹی اقتدار میں آ کر ملک سے وی وی آئی پی کلچر کا خاتمہ کرے گی اس قسم کے وعدے سن سن کر اس ملک کے عوام کے کان پک چکے ہیں کیونکہ ماضی میں بھی اس قسم کے وعدے کئے گئے پر پھر چشم فلک نے دیکھا کہ ان وعدوں کو کسی نے بھی پورا کرنے کی کوشش تک بھی نہ کی اقتدار میں آنے کے بعد رات گئی بات گئی کے مصداق وعدہ کرنے والوں نے طوطا چشمی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے اس وعدے کو پس پشت ڈال دیا ۔

علم و دانش کی کتابوں میں لکھا ہے اور بزرگوں سے ھم نے سنا ہے کہ حکمرانوں کا بودوباش طرز زندگی اور رہن سہن ان کے ملک کے ایک عام آدمی کے رھن سہن اور بودوباش کی طرح ہونا چاہئے نہ کہ بادشاہوں کی طرح ۔