آج کے کالم میں ہم پہلے اس ای میل کا ذکر کریں گے جس میں ہمارے ایک قاری نے ہم سے ایک چبھتا ہوا سوال پوچھا ہے انہوں نے سوال کیا ہے کہ زیادہ دور کی بات نہیں ب سرکاری ہسپتالوں میں پرچی بنتی تھی اور اس پرچی پر مریض کا مفت علاج ہوتا تھا اور اسے دوائی بھی مفت ملتی تھی‘بعد میں پے منٹ پر دوائی ملنے لگی اور پھر کارڈ والا سسٹم نافذ ہوا اور اب یہ عالم ہے کہ کارڈ پر بھی دوائی دستیاب نہیں‘ وہ پرانا پرچی والا سسٹم آ خر گیا کہاں اور اسے ترک کیوں کیا گیا ‘ یہ سوال واقعی سوچ طلب سوال ہے‘ بجائے اس کے کہ سرکاری ہسپتالوں میں صحت عامہ کے پرانے نظام میں بہتری لائی جاتی‘ اس میں تنزلی آئی ہے‘ وطن عزیز میں حکمرانوں کا اب تک یہ وطیرہ رہا ہے کہ ہر آنے والی نئی حکومت کے کرتا دھرتا ایوان اقتدار سے رخصت ہونے والی حکومت کے عوامی فلاح و بہبود کے ترقیاتی منصوبوں کو بھلے وہ عام آدمی کے مفاد میں کتنے ہی اچھے کیوں نہ ہوتے ختم کر دیا کرتے تھے‘ پر بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام غالباً وہ واحد پراجیکٹ ہے کہ جسے جس پارٹی نے شروع کیا تھا اس کے اقتدار سے چلے جانے کے بعد بھی اس کی جگہ اقتدار میں آ نے والے حکمران اسے ختم نہ کر سکے اور اس کی وجہ محض یہ تھی کہ اس پروگرام کو تخلیق کرنے والے ماہرین نے اسے اس طرح فول پروف بنایا تھا کہ اس کے تحت سرکاری خزانے سے جو رقم نکال کر تقسیم کی جاتی یا کی جا رہی ہے وہ واقعی حقدار لوگوں تک پہنچتی ہے اس پروگرام کو عوام میں اتنی زیادہ پذیرائی ملی کہ ہر مکتبہ فکر کے سیاست دان اس کے فنڈز میی اضافہ کرنے کی آج بات کرتے ہیں جو اس حقیقت کا کھلا اعتراف ہے کہ اسے ملک بھر میں پسند کیا گیا ہے اور اب آ تے ہیں الیکشن مہم میں ہونے والی تقاریر میں الفاظ کی بمباری کی طرف خصوصاً نواز لیگ اور پی پی پی کے لیڈروں کے درمیان کہ جو اب ہر حد کو عبور کر چکی ہے الیکشن کی مہم کے اس کھیل میں اگر کوئی سیاسی جماعت تن تنہا کھڑی نظر آ رہی ہے تو وہ جماعت اسلامی ہے جس کا مزاج کسی بھی پارٹی سے میل نہیں کھا رہا ماضی قریب میں ایک ایسا وقت بھی ضرور آ یا تھا جب اس کی پی ٹی آئی سے گاڑھی چھنتی تھی پر ان کا وہ ملاپ بس چند روزہ ہی تھا وہ سیاسی پارٹیاں جو بادی النظر میں پی ٹی آئی کی سیاسی حریف سمجھی جاتی ہیں ان کابھی آپس میں کئی امور پر مختلف زاویہ نظر ہے جو الیکشن کے بعد وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے قیام کے وقت اسمبلیوں میں نظر آئیگا اگر کوئی سیاسی لیڈر یہ کہہ رہا ہے کہ سوشل میڈیا پر طوفان بد تمیزی ہے تو وہ درست ہی کہہ رہا ہے کیونکہ وطن عزیز کے سنجیدہ حلقے اس بات پر سخت پریشان ہیں کہ اچھی طرح جانتے بوجھتے ہوئے بھی کہ اگر ایک طرف سوشل میڈیا ملک میں سیاسی انتشار پیدا کر رہا ہے تو دوسری طرف اس کے نشر کئے جانے والا اکثر مواد ملک کی جوان نسل کو بے راہ روی کا شکار کر رہا ہے‘ارباب اقتدار اس مواد کو سنسرشپ کے تابع نہیں کر رہے کہ جو اس پر پبلک کو دکھایا جا رہا ہے ایک سیاسی لیڈر کا یہ بیان سو فیصد درست ہے کہ اگر الیکشن شفاف نہ ہوئے تو ملک میں زیادہ احتجاج ہوں گے اس لئے اب یہ تمام سیاسی جماعتوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ الیکشن کی تاریخ سے پیشتر فوری طور پر ایک گول میز کانفرنس میں بیٹھ کر آپس میں ایک ضابطہ اخلاق مرتب کریں کہ اگر الیکشن کے دوران کسی بھی حلقے سے کسی قسم کے غیر قانونی واقعے کی رپورٹ آئے تو وہ اس کی انکوائری کے لئے الیکشن کمیشن سے رجوع کریں گے اور اپنے طور سڑکوں یا پولنگ سٹیشنزپر کسی قسم کا شور غوغا کرنے سے احتراز کریں گی اس ضمن میں سیاسی قائدین کو اپنے اپنے ورکرز کو ضروری ہدایات دینے کی سخت ضرورت ہے کیونکہ خاکم بدہن اگر امن عامہ کے حالات ذرا سے بھی بگڑے تو الیکشن التوا کا شکار ہو سکتے ہیں۔
اس صورت میں پھر تمام سیاسی لیڈر ایک دوسرے کا منہ تکتے رہ جائیں گے اور فائدہ صرف وطن عزیز کے دشمن عناصر کا ہی ہوگا کہ جو اس ملک میں انتخاب کے ذریعے صحیح معنوں میں عوامی حکومت کے قیام کو روکنا چاہتے ہیں۔