قومی ترجیحات کا تعین 

مقام شکر ہے کہ ملک بھر میں انتخابات کا پہلا مرحلہ اختتام پذیر ہوا حالانکہ ایک سٹیج پر ایسا نظر آ رہا تھا کہ ملک میں ہے در پے بم دھماکوں کی وجہ سے کہیں الیکشن کا انعقاد التواء میں نہ پڑ جائے اب دوسرا اہم مرحلہ یعنی وفاق اور صوبوں میں حکومتوں کا قیام‘ وزیر اعظم اور وزرائے اعلیٰ کا انتخاب ان کی کابیناﺅں کی تشکیل ‘گورنروں کی نامزدگی ‘قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے سپیکرز کی سلیکشن اور سینٹ کے چیئرمین کی تعیناتی وہ اہم کام ہیں جو ابھی کرنے کے ہیں اور ان کے بعد کہیں جا کر حکومت پٹڑی پر چڑھے گی قوم کو اس سے کوئی سروکار نہیں کہ کس کس سیاسی پارٹی کی حکومت وفاق اور صوبوں میں برسر اقتدارہو البتہ ملک میں آج عوام کا سیاسی شعور اتنا زیادہ بیدار ضرور ہو گیا ہے کہ وہ جانتے ہیں کہ اس الیکشن کے ذریعے بر سر اقتدار آنے والے نئے ارباب بست و کشاد کی ترجیحات کیا کیا ہونی چاہئیںسب سے پہلے ان کو معیشت کی مضبوطی کی طرف توجہ دینی ہوگی ‘ ایک عرصے سے وطن عزیز کی معیشت ڈانواں ڈول ہے ‘ماضی میں کسی بھی سیاسی پارٹی نے بیرونی قرضوں سے ملک کی جان چھڑانے کی صدق دل سے کوشش ہی نہیں کی اور نہ ہی اپنی چادر کے سائز کے مطابق اپنے پاﺅں پھیلائے قرضے لے کر ملک چلانا سب سے آ سان کام ہے‘ سو سب نے اسی کام کو اپنا وطیرہ بنایا اور آج ورثے میں وہ اس قدر قرضہ چھوڑ گئے ہیں کہ آئندہ آ نے والی حکومت کو انہیں اتارنے میں دن کو تارے نظر آ ئیں گے ۔ اقتدار اس کے لئے پھولوں کی سیج نہیں بلکہ کانٹوں کا بستر ہو گا آج ملک میں غریب اور امیر میں واضح فاصلہ نظر آ رہا ہے ایک طرف ملک میں چند لوگوں کے واسطے محل نما بنگلوں کی تعمیر ہے تو دوسری جانب اکثر لوگوں کا کچے مکانات اور جھگیوں میں بسیرا۔ ایک طرف ملک کی اکثریت اپنے معمولات زندگی نمٹانے کے لئے سائیکلوں اور
 پھٹیچر قسم کی بسوں اور ویگنوں میں سفر کرتی ہے تو دوسری جانب گنے چنے چند لوگ لگژری گاڑیاں استعمال کرتے ہیں کہ جن کی قیمت کروڑوں میں ہوتی ہے ۔وطن عزیز کو انتخابی اصلاحات کی بھی اشد ضرورت ہے‘ موروثیت کو سیاسی پارٹیوں سے ختم کرنا ہو گا کیونکہ موجودہ الیکٹورل سسٹم میں کئی قابل اور پڑھے لکھے پارٹی ورکرز کو پارٹی کے اندر آگے آنے نہیں دیا جاتا ۔ملک کے اندر چاروں صوبوں کو ریل کے ایک مربوط نظام سے منسلک کرنا ہوگا ‘ صدر وزیراعظم گورنرز وفاقی اور صوبائی وزراءبشمول وزرائے اعلیٰ کو کاروں کے بجائے حتی الوسع ریل میں سفر کرنا ہوگا ‘شہروں کے اندر بھی ٹرام یا انڈر گراﺅنڈ ریلوے کا ایک جال بچھایا جائے ۔ ملک کے اندر سرکاری ہسپتالوں میں ہر پاکستانی کے واسطے مفت طبی سہولت کا انتظام ہو‘ اسی طرح ملک کے اندر ہر بچے اور بچی کو مفت تعلیم حاصل کرنے کی سہولتیں حاصل ہوں ۔جہاں تک امور خارجہ کا تعلق ہے ‘ ارباب اقتدار کو چین اور روس کا دامن کسی حال بھی نہیں چھوڑنا ہوگا اور یہ کوشش کرنی ہو گی کہ وطن عزیز ایران اور افغانستان کی ایک کنفیڈریشن بن جائے جو ان تین ہمسایہ ممالک کے عوام کے واسطے یکساں طور پر اگر معاشی طور پر فائدہ مند ہو گی تو دوسری طرف یہ خطہ ہر قسم کی عالمی ریشہ دوانیوں سے بھی بچ جائے گا۔ فارن آفس کو وسطی ایشیا کے ممالک کے ساتھ بھی قریبی روابط رکھنے کے واسطے ان تھک کوشش کرنا ہو گی ۔اسی طرح توانائی کا مسئلہ بھی نئی حکومت کی ترجیحات میں شامل ہونا چاہئے۔ سولر انرجی یا ونڈ انرجی یا اس قسم کے جدید طریقوں سے شارٹ ٹرم میں اس مسئلے کے حل کیلئے مدد لی جا سکتی ہے‘ پر لانگ ٹرم کے واسطے حکومت کو پانی سے بجلی بنانے کے لئے ڈیمز بنانا ہوں گے کیونکہ پانی سے جو بجلی بنتی ہے وہ عوام کو سستی ترین بجلی پڑتی ہے ۔ امن عامہ قائم رکھنے کے واسطے نئی حکومت کو فوراً سے پیشتر مناسب قانون سازی کر کے کلاشنکوف اور اس جیسے تمام ممنوعہ بور کے اسلحہ کے استعمال اور اس کی نمائش پر پابندی لگانا ہوگی ۔اس قسم کا مہلک اسلحہ صرف اور صرف افواج پاکستان ‘ پولیس اور پیرا ملٹری فورسز کے زیر استعمال ہونا چاہئے۔