سیاسی افق پر چمکنے والے ستارے 

تاریخ کی کتب کے مطالعے سے پتہ چلتا ہے کہ افلاطون کے مطابق اس کے عہد تک یونان میں پانچ قسم کی ریاستوں کے تجربے ہو چکے تھے اول اشرافیہ‘ دوئم timocracyسوئم oligarchy‘چہارم جمہوریت‘ پنجم آمریت timocracyکا نظام کرپٹ تھا اور سپارٹا میں رائج تھا اس نظام میں حکومت کا اختیار فقط صاحب املاک افراد کو حاصل تھا جس کے پاس جتنی زیادہ جائیداد ہوتی نظم و نسق میں اتنا ہی زیادہ اس کا اختیار چلتا تھا‘افلاطون اس طرز حکومت کو سخت ناپسند کرتا تھا کیونکہ اس میں صرف دولتمند ہی راج کرتے تھے اور غریبوں کی کوئی آواز نہ تھی‘ دولت اور دولت مندوں کی عزت ہوتی تھی اور پاکبازوںکی بے قدری ‘افلاطون کا خیال تھا کہ اگرحاکموں اور محافظوں کی خاطر خواہ اصلاح ہو جائے تو تاجروں دستکاروں اور کاشتکاروں کی اصلاح خود بخودہو جائے گی لہٰذا حاکموں اور محافظوں کی تعلیم و تربیت بچپن سے ہی ہونی چاہیے ‘ جن بچوں میں آگے بڑھنے کی رمک دکھائی دے ان کو گھر والوں سے الگ کر کے کیمپوں میں رکھا جائے جہاں ان کو لائق استادوں کی نگرانی میں جسمانی توانائی کی خاطر جمناسٹک اور نصاف میں وہی مضامین ہوں وطن کی خدمت کا جوش اور وطن کی خاطر قربانی کا ولولہ پیداہو‘ ذاتی مفاد کے بجائے ملکی مفاد کو فوقیت دینے کا جذبہ پیدا ہو چونکہ ذاتی ملکیت ہی حب جاہ وہوس اور اقتدار اور ذاتی مفاد کا باعث ہوتی ہے لہٰذا ان دونوں طبقوں کی کوئی ذاتی ملکیت حتیٰ کہ ذاتی مکان بھی نہیں ہونا چاہیے ان کو ریاست سے گزارے کےلئے بس اتنا معاوضہ ملتا رہے جو ان کی سال بھر کی ضرورتوں کیلئے کافی ہو‘ بیس برس کی عمر میں بچوں کا امتحان لیا جائے تاکہ ان کی جسمانی ذہنی اور اخلاقی صلاحیتوں کا اندازہ ہو سکے جو بچے معیار پر پورا نہ اتریں ان کو تجارت محنت مزدوری دستکاری اور کاشتکاری میں لگا دیا جائے ان لوگوں کو ذاتی ملکیت کی اجازت نہ ہو‘ فضیلت کی بنیاد دولت نہ ہو‘ اب ذرا تازہ ترین خبروں پر ایک طائرانہ نظر ڈال لی جائے تو کوئی مضائقہ نہیں‘ جماعت اسلامی کے امیر سراج الحق کا اپنی جماعت کی قیادت سے استعفیٰ ایک جمہوری روایت ہے جو قابل تعریف ہے‘ انہوں نے کھلے دل سے 8فروری کے الیکشن میں جماعت اسلامی کی ناکامی کا اپنے آپ کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے ۔ میجر ریٹائرڈ امین اللہ جو اگلے روز وفات پا گئے ڈیرہ اسماعیل خان کی ایک ممتاز شخصیت تھے جنہوں نے آ رمی میں بطور انسٹرکٹر بڑا نام کمایا اور فوج سے ریٹائرمنٹ کے بعد وہ ڈی آئی خان میں مقامی سطح پر عوام کے مسائل حل کرنے میں بھر پور کام کرتے رہے‘ وہ انگریزی اور اردو زبان میں کئی کتابوں کے خالق بھی تھے ڈیرہ اسماعیل خان کی تاریخ پر انہوں نے جو کتاب لکھی ‘ ادبی حلقوں میں میں اس کی کافی پذیرائی ہوئی‘ اس طرح علامہ اقبال کی شاعری پر بھی ان کی لکھی ہوئی کتابوں کو بھی ادبی حلقوں میں مقبولیت حاصل کی‘ انہوں نے انگریزی زبان میں سکوائش کے ممتاز کھلاڑیوں ہاشم خان اعظم خان اور روشن خان پر جو کتاب رقم کی وہ بھی کھیلوں کے حلقوں میں مقبول ہوئی۔ وزیراعظم نے اگلے روزآٹھ فروری کو ہونے والے الیکشن کے بارے میں جو پریس کانفرنس کی وہ بڑی واضح اور دو ٹوک تھی ان کا یہ کہنا بجا تھا کہ نتائج میں تاخیر کا مطلب دھاندلی نہیں ان کی یہ بات بھی درست ہے کہ الیکٹرونک مشین سے پولنگ کا فیصلہ پارلیمنٹ کرے ان کا یہ موقف بھی کافی وزنی تھا کہ کسی ملک کے کہنے پر تحقیقات نہیں کریں گے۔

 ‘یورپی یونین برطانیہ اور امریکہ ہمارے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کر سکتے ان کا تجزیہ سوشل میڈیا پر مبنی تھا جس قسم کے چیلنجز کا ہم کو سامنا تھا وہ تو کیپیٹل ہل میں بھی تھے کیا ہم نے امریکہ کو عدالتی کمیشن بنانے کا کہا ۔ ایک عرصہ سے بلاول بھٹو اپنے جلسوں میں یہ مطالبہ کر رہے تھے کہ قوم8 فروری کے الیکشن میں پرانے چہروں کو رد کر دے اگر آپ اس الیکشن کے نتائج کی فہرست پر ایک سرسری نظر بھی ڈالیں تو بعض حقایق روز روشن کی طرح واضح ہو جاتے ہیں ‘مثلاًیہ کہ سیاسی افق پر عرصہ دراز سے چمکنے والے ستارے بجھ گئے