پارلیمانی جمہوریت صرف اسی صورت میں ڈلیور کر پاتی ہے کہ اگر اس کے تمام سٹیک ہولڈرز اپنی اپنی حدود و قیود کے اندر رہیں‘ وطن عزیز کا ہمیشہ یہ المیہ رہا ہے کہ ایسا نہیں ہوا جس کی وجہ سے یہ ملک سیاسی انتظامی لحاظ سے خلفشار کاشکارہی رہا‘ ان جملہ ہاے معترضہ کے بعد تازہ ترین اہم ملکی اور عالمی امور پر تبصرہ بے جا نہ ہوگا ۔جہاں تک ملکی سیاست کا تعلق ہے تو وہ تا دم تحریر انتشار کا شکار ہے‘ سیاسی پارٹیوں میں جو دیرینہ چپقلش ہے وہ بدستور قائم ہے ‘ان میں مفاہمت کی جگہ مخاصمت نظر آ رہی ہے‘ سیاسی حریف ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں مبتلا ہیں ‘انا پرستی اور ضد بازی ان کی سیاست کا شیوہ بن چکا ہے‘ اس صورت حال نے اس ملک کے ہر محب وطن کو مایوسی میں مبتلا کر دیا ہے اور وہ وطن عزیز کے مستقبل کے بارے میں فکر مندہو چلا ہے ‘سوشل میڈیا نے تو جیسے ملک میں ایک طوفان بد تمیزی برپا کر رکھا ہے‘ کسی کی عزت محفوظ نہیں رہی ہر کسی کی پگڑی اچھالی جا رہی ہے‘ بڑے چھوٹے کی تمیز تو بالکل ختم ہو گئی ہے جسے دیکھو جو اس کا جی چاہے منہ پر لا رہا ہے‘ ہر ایک نے ہاتھ میں موبائل پکڑا ہواہے‘ صبح تڑکے اٹھنے کے بعد وہ نماز پڑھ کر خدا کو یاد کرنے کے بجاے موبائل سکرین کھولتا ہے‘ رات گئے بستر پر لیٹے بھی وہ اس کو دیکھتا رہتا ہے‘ کتنے والدین ایسے ہوں گے جو اپنے بچوں سے یہ پوچھتے ہوں کہ آ خر موبائل کی سکرین پر کیا ہے جو وہ چلتے پھرتے کھاتے پیتے اور بستر پر لیٹتے وقت بھی اس کا دامن نہیں چھوڑتے ‘بے حیائی تو سوشل میڈیا پھیلا ہی رہا ہے پر دوسری طرف ملک میں جو سیاسی خلفشار نظر آ رہاہے اس میں بھی اس کا بہت بڑا ہاتھ ہے‘ بھانت بھانت کی بولیاں اس کے ذریعے بولی جا رہی ہیں۔امریکہ اور چین کے درمیان جو فرق ہے آپ اس کا اس بات سے اندازہ لگا لیں کہ امریکہ قصداً بعض عالمگیر تنازعوں میں ان ممالک کی ہلہ شیری کر رہا ہے جو چین اور روس کے خلاف لڑ رہے ہیں ‘جب کہ چین کو یہ فکر دامن گیر ہے کہ کس طرح ترقی پذیر ممالک میں غذائی تحفظ کو یقینی بنایا جائے‘ اس کا یہ موقف قابل تعریف ہے کہ ترقی یافتہ ممالک سیاسی شرائط کے بغیر ضرورت مند ممالک کو مزید خوراک اور فنڈز فراہم کریںدنیا کس قدر بدل چکی ہے۔
‘ ہر ملک اپنے ذاتی مالی مفادات کے حصول کے لئے اپنی پرانی اقدار چھوڑ رہا ہے‘ حتیٰ کہ اپنے اسلاف کے طور طریقوں کو بھی پیسوں کی خاطر اپنی تجارت کے فروغ کیلئے قربان کر رہا ہے‘ اس تبدیلی کی تازہ ترین مثال اگلے روز ابو ظہبی میں مودی کے ہاتھوں پہلے ہندو مندر کے افتتاح کی شکل میں سامنے آئی جس کی تعمیر پر 9کروڑ 50لاکھ ڈالر کا خرچہ آئے گا اور یہ خلیج میں سب سے بڑا مندرہوگا۔