وفاق سمیت صو بوں میں بھی منتخب حکومتیں جلد حلف اٹھائیں گی سیا ست دانوں اور ان کی حکومتوں کو ہرآن ، ہر وقت کوئی نہ کوئی مسئلہ للکار رہا ہو تا ہے‘ اس مسلسل للکار کےلئے انگریزی کا لفظ چیلنج اتنا زیا دہ استعمال ہوا ہے کہ اب یہ لفظ اردو کی للکار سے زیا دہ ما نوس اور شنا سا لگتا ہے ہم لو گ سکول میں پڑھتے تھے تو چیلنج لکھنے کا بڑا رواج تھا ہر روز کسی نہ کسی جما عت کی فٹ بال ، والی بال یا ہا کی ٹیم کو چیلنج دیتے تھے کہ ہماری ٹیم آپ کے ساتھ دوستانہ یا شرطیہ میچ کھیلنا چاہتی ہے اُدھر سے جواب آتا تھا تو میچ کی تیار ی شروع ہو جا تی تھی آج کل ذرائع ابلا غ میں سیا سی لیڈروں اور حکمرانوں کی طرف سے جو بیا نات پڑھنے اور سننے کو ملتے ہیں ان میں بار بار یہ بات دہرائی جا تی ہے کہ ہمیں فلاں چیز کا چیلنج درپیش ہے اور یہ چیلنج بھیس بدل کر آتا ہے کبھی اُن کو کرپشن کا چیلنج درپیش ہو تا ہے ، کبھی توانا ئی کا چیلنج سامنے آتا ہے ، کبھی صاف شفاف انتخابات کا چیلنج ان کو گھیر لیتا ہے تو کبھی قانون کی حکمرانی کا چیلنج آڑے آتا ہے‘ 8فروری 2024کے انتخا بات کے بعد نئی حکومت کے سامنے ایک سو ایک چیلنج پڑے ہوئے ہیں ان میں پہلا چیلنج قرض داری کا ہے ، ہمارا ملک 1958ءمیں قرض دار نہیں تھا پھر آہستہ آ ہستہ قرض دار ہونا شروع ہو انئی حکومت کے آنے سے پہلے بینک دولت پا کستان یعنی سٹیٹ بینک نے جو اعداد و شمار جا ری کئے ان میں بتا یا گیا ہے کہ دسمبر 2022ءمیں ملک جتنا مقروض تھا ایک سال 2ماہ گذر نے کے بعد اس میں 27فیصد اضا فہ ہو کر اب پا کستان پر قرضوں کا بو جھ 65کھر ب روپے کی حد کو عبور کر گیا ہے ، نیا ما لی سال جو ن 2023ءمیں شروع ہوا تھا گذشتہ جون سے موجو دہ فروری تک قرضوں میں 14فیصد مزید اضافہ ہوا ہے گویا ہم صبح و شام قرض لینے کے سوا کوئی اور کام ہی نہیں کر تے کسی شاعر کا شعر سنا تھا
میں کچھ بھی نہیں کرتا وہ آرام کر تے ہیں
میں اپنا کام کر تا ہوں وہ اپنا کام کر تے ہیں
مو جودہ حالات میں پا کستان نے جن 18ذرائع سے قرض لیا ہے ان میں سب سے مشکل مسئلہ انٹر نیشنل ما نیٹیری فنڈ (IMF) کا ہے ، اگلے مہینے آئی ایم ایف ہم سے پچھلی قسط کا تقا ضا کر ے گا ، قسط ادا کرنے کی صورت میں نیا قرض منظور کرے گا ، فی الحا ل یہ خبر گردش کر رہی ہے کہ آئی ایم ایف نے گردشی قرضوں کے بارے میں پاکستان کی منصو بہ بندی کو نا قص قرار دیا ہے اور عوامی خد مات بجلی ، گیس ، تیل وغیرہ کے نر خوں میں مزید اضا فہ کی تجویز دی ہے اب یہ بات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ آئی ایم ایف کی تجویز کو حکم کا درجہ حا صل ہوا کر تا ہے نئی حکومت کے سامنے نئی اسمبلیوں کے اخراجات اور ہر سطح کی کا بینہ کے اخرا جات کا تخمینہ بھی رکھا جا ئے گا جو 50ارب روپے ما ہا نہ کے برابر ہوا کرتا ہے وفاق میں 92وزرا ءاور ہرصوبے میں کم از کم 55وزراءکی فوج ظفر مو ج بھر تی ہوا کر تی ہے تجر بے اور مشا ہدے کی بات یہ ہے کہ ہر وزیر ، مشیر اور معا ون خصو صی اپنے دفتر کے لئے نئے فر نیچر ، نئے پر دے ، نئے قالین اور نئی گاڑی کا مطا لبہ کرتا ہے اگر قرضوں میں ڈوبی ہوئی معیشت کے مقا بلے میں نئے اخرا جات کے تخمینے کو دیکھتے ہیں تو سر چکر اتا ہے کہ اس ملک کا کیا بنے گا اب مسئلہ یہ نہیں کہ قرض کس نے لیا ؟ بلکہ مسئلہ یہ ہے کہ قرض کیسے اتارا جا ئے ! پلاننگ کمیشن کی طرف سے جا ری کر دہ اعداد و شمار کے مطا بق دسمبر 2008ءمیں پا کستان 29کھر ب روپے کا مقروض تھا ، گذشتہ 15سالوں میں قرض کا حجم ڈبل سے بھی زیا دہ ہو گیا حا لانکہ 2008ءمیں یہ طے کیا گیا تھا کہ اگلے 10سالوں میں سارے قرضے ادا کئے جائینگے اور یہ بات عین ممکن تھی اب چیلنج یہ نہیں کہ عوام کی خد مت کیسے کی جا ئے ! بلکہ چیلنج یہ ہے کہ پا کستان کا قرضہ اتار کر اگلے 5سالوں میں ملک کو افغا نستان کے برابر کس طرح لا یا جا ئے ، جی ہا ں افغانستان پر ایک آنہ پائی کا قرض نہیں ، افغا نستان کو آئی ایم ایف کی نا راضگی کا کوئی غم نہیں قصہ مختصر نئی حکومت کے لئے قرضوں سے چھٹکا را پہلا چیلنج ہے ۔