خلفشار کی شکار ملکی سیاست

تادم تحریر یہ بالکل پتہ نہیں چل رھا کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا کون وفاق اور کون صوبوں میں اقتدار کے سنگھاسن پر براجمان ہو گا لمحہ بہ لمحہ سیاسی افق پر تبدیلی کے بادل چھا رہے ہیں خواجہ سعد رفیق کی یہ تجویز قابل غور ہے کہ ملک کے موجودہ سیاسی بحران کو ختم کرنے کے واسطے سر دست ایک قومی حکومت کا قیام عمل میں لایا جائے یہ بالکل درست بات ہے کہ سیاست میں نہ تو کوئی حرف آخر ہوتا ہے نہ ہی اس کے سینے میں دل‘ کیا کل تک کوئی یہ سوچ بھی سکتا تھا کہ پی ٹی آئی اور جے یو آئی جو ایک دوسرے کے سیاسی حریف تھے آج دوست بن جائیں گے اور جو دوست تھے وہ دشمنی کی راہ اختیار کر لیں گے ‘انا پرستی اور ضد بازی نے سیاسی پارٹیوں میں جیسے ڈیرے بنا لئے ہوں۔ میڈیا کی آزادی اچھی چیز ہے آزادی رائے ہر انسان کا بنیادی حق ہے‘ پر اس کی بھی کوئی حدود و قیود ہوتی ہیں اس کا قطعاً یہ مطلب نہیں کہ یہ آزادی مادر پدر آزاد ہو اس میں چھوٹے بڑے کی تمیز نہ ہو اچھے برے کا فرق نہ کیا جائے‘وطن عزیز کا شاذ ہی کوئی ایسا شعبہ زندگی ہو کہ جس میں اصلاحات کی آج ضرورت محسوس نہ کی جاتی ہو اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ایک عرصے سے ہماری اسمبلیوں کے اراکین نے اس طرف اتنا دھیان نہیں دیا کہ جتنا درکار تھا ‘ ہر اسمبلی کا بنیادی کام ہی یہ ہوتا ہے کہ وہ ہر شعبہ زندگی کی کارکردگی پر گہری نظر رکھے اور جہاں جہاں محسوس کرے کہ ان کو بہتر انداز میں چلانے کے واسطے نئے قوانین کی ضرورت ہے یا موجود قوانین میں ترامیم کی تو اس ضمن میں مناسب اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے‘ ہر شعبہ زندگی اصلاحات کا متقاضی ہے کیا‘ اس بات کی ضرورت محسوس نہیں کی جا رہی کہ ملک میں خالص جمہوری نظام کے قیام کے واسطے ایسی انتخابی اصلاحات کی جائیں کہ موروثی سیاست کا قلع قمح ہو جائے اور یر سیاسی پارٹی میں موجود قابل دیانتدار اور عوام دوست افراد کو پارٹی کے اندر اوپر آنے کا موقع مل سکے‘ کیا وطن عزیز میں Standard of living tax کے نفاذ کی ضرورت نہیں کہ جس کے تحت ٹیکس لگاتے وقت امیر اور غریب میں فرق کیا جائے جن لوگوں کے پاس اتنا زیادہ دھن ہو کہ وہ کئی کئی کنالوں پر محیط محل نما بنگلوں میں رہتے ہوں جن کی کار پورچ میں کڑوروں روپوں کی مالیت کی ایک سے زیادہ گاڑیاں کھڑی ہوں جن کے بال بچے ملک کے اندر ان تعلیمی اداروں میں پڑھتے ہو ں کہ جن کی فیس ڈالروں میں ادا کی جاتی ہو جو ہر سال شاپنگ اور سیر سپاٹے کے واسطے یورپ امریکہ یا عرب امارات کے چکر لگاتے ہوں ‘ان پر بھاری انکم ٹیکس کا نفاذ ضروری ہے۔