اس دھرتی پر انسان کی مثال مسافر چند روزہ سے مختلف نہیں دنیا ایک سرائے کی مانند ہے جس میں مسافر کچھ عرصے کے قیام کے بعد رخصت ہو جاتے ہیں اس دھرتی پر کسی کا مستقل ٹھکانہ اگر ہے تو وہ زمین کی آ غوش میں ہے جہاں ابتدائے آفرینش سے لوگ محو خواب ہیں‘بہت کم لوگوں کو پتہ ہوگا کہ 1907 میں چین کے ایک نواحی غار سے انسانوں کے 45ڈھانچے ملے جو چار لاکھ برس پرانے تھے اسی طرح 1907 میں ہی ہائیڈل برگ جرمنی کے مقام پر آ دمی کا ایک جبڑا ملا جو پانچ لاکھ برس پرانا تھا‘ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ جو لوگ زمین کے نیچے دفن ہیں ان کی تعداد ان لوگوں سے زیادہ ہے جو آج زمین کے اوپر رہتے ہیں‘ انسان اگر اپنی بے ثباتی کو سمجھ جائے تو وہ کبھی بھی زمین کے اوپر اکڑ کر نہ چلے اور ہمیشہ عاجزی سے اپنا وقت گزارے پر یہ بات اس کی سمجھ میں نہیں آ تی۔ بعض ترقی یافتہ ممالک میں ریسرچ کا یہ عالم ہے کہ وہ چیونٹی جیسی چھوٹی چیز پر بھی تحقیق کر رہے ہیں ان کی ایک ریسرچ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ جو گزشتہ سو سال کے اندر انسانوں کی پیدائش اور موت سے متعلق ہے کہ 100 میں سے صرف 11 افراد ایسے ہیں کہ جو 60 سال کی عمر کو پہنچ پاتے ہیں۔ اب آتے ہیں تازہ ترین قومی اور عالمی امور کی جانب‘وطن عزیز ابھی تک الیکشن کے بخار میں مبتلا ہے اور اس کا درجہ حرارت ابھی مکمل طور پر ٹوٹا نہیں ہے کئی روز سے ٹائیفائیڈ کے بخار کی طرح کبھی یہ اوپر چڑھتا ہے اور کبھی نیچے آ جاتا ہے‘ ملک کے خزانے کا یہ عالم ہے کہ اگر عالمی مالیاتی ادارے ہر ماہ قرضے نہ دیں تو ارباب اقتدار کے پاس اتنے پیسے بھی نہیں کہ وہ سرکاری اہلکاروں کو ماہانہ تنخواہ تک دے سکیں‘ریاستی اداروں کے کرتا دھرتا ایک دوسرے کو ملک کے مختلف مسائل پیدا کرنے کا مورد الزام ٹھہرا رہے ہیں جب تک وہ اس حقیقت کو تسلیم کر کے اپنی اصلاح خود نہیں کریں گے کہ ان میں سے ہر ایک نے اپنی آئینی حدود و قیود کو توڑا ہے یہ ملک ٹھیک نہیں ہو سکتا‘ منتخب حکومت کے قیام میں اگر تاخیر ہوگی تو ایوان اقتدار میں بیٹھے افراد کے مسائل میں اضافہ ہوتا رہے گا۔ یورپ اور امریکہ میں تاجر اپنے مذہبی تہواروں جیسے کہ کرسمس اور ایسٹر کے موقع پر از خود خود رضا کارارنہ طور پر اشیائے خوردنی اور اشیا ئے صرف کی قیمتوں میں کمی کر دیتے ہیں تاکہ وہاں بسنے والے غریب لوگ بھی اپنے تہوار بہ آ سانی بھرپور طریقے سے منا سکیں‘ان کے بر عکس ہم رمضان شریف اور عیدین کی آمد سے پہلے ان اشیائے خوردنی کو ذخیرہ کر دیتے ہیں کہ جن کی ان تہواروں میں زیادہ کھپت ہوتی ہے تاکہ مارکیٹ میں ان کی قلت پیدا ہو جائے اور ہم پھر انہیں اپنی من مانی قیمت پر فروخت کر کے خوب اپنی تجوریاں بھر لیں‘ ابھی رمضان شریف شروع ہی نہیں ہوا اور ملک کی مارکیٹ میں اشیائے خوردونوش کی قیمتیں آسمان سے باتیں کرنے لگی ہیں کہاں ہیں ضلعی انتظامیہ اور ضلعی پرائس ریویو کمیٹیاں؟۔امریکہ پاکستان میں ہونے والے حالیہ الیکشن کے نتائج میں جس قسم کی دلچسپی کا مظاہرہ کر رہا ہے وہ کوئی انہونی بات نہیں ہے‘ اس نے ہمیشہ یہ چاہا ہے کہ وہ پاکستان کو اپنی مٹھی میں رکھے اور اس ملک میں جو بھی حکومت ہو وہ اس کی ڈگڈگی پر ناچے۔ وزارت صحت سندھ کا یہ صائب فیصلہ ہے کہ جس کے تحت اس نے اپنے ادارے کے دفاتر میں مٹھاس کھانے پر پابندی لگا دی ہے‘ شوگر کے استعمال سے ملک میں شوگر کی بیماری تیزی سے پھیل رہی ہے‘ میٹھے مشروبات جنہیں ڈاکٹر لوگ fizzy drinks کہتے ہیں کا ملک میں استعمال خطرناک حد تک بڑھ گیا ہے۔