وہ جو تم بھول گئے


پا کستان میں انتخا بات سے پہلے فلسطین کے مسلمانوں کا قتل عام ہو رہا تھا جس روز ہم ووٹ ڈالنے گئے اس روز فلسطینیوں کے اوپر دشمن کے جنگی مظا لم اور جرائم کو چار ما ہ پورے ہوئے تھے‘وہی فلسطین، وہی غزہ اور وہی مظا لم وہ جو تم بھول بیٹھے ہو۔ جی ہاں وہ جو تم بھول بیٹھے ہوتا زہ ترین صورت حا ل یہ ہے کہ دشمن نے فلسطینیوں کو غزہ کے مختلف محلوں اور دیہات سے در بدر کیا تھا، گھروں کے اجڑ نے کے بعد وہ لو گ جنو بی غزہ کے علا قے میں پنا ہ گزین ہو ئے تھے‘فروری کے پہلے دو ہفتوں میں دشمن نے رفع پر بمباری کر کے اس پنا ہ گاہ کو بھی ملیامیٹ کر دیا اب فلسطینیوں کو لا شیں دفنا نے اور زخمی اٹھا نے کے ساتھ ساتھ مزید کئی مسائل درپیش ہیں مثلا ً کھا نے کو ایک وقت کی روٹی بھی نہیں‘ پینے کو ایک بوند پا نی بھی نہیں‘ رات دن بمباری سے فضا اور ہوا میں زہر یلے مواد بھرے ہوئے ہیں‘ گونا گوں بیماریاں پھیلی ہوئی ہیں علا ج معا لجے کی کوئی صورت نظر نہیں آتی‘افرا تفری کا ایک سماں ہے‘خواتین اور معصوم بچے کسمپرسی کی حالت میں زندگی کی گھڑیاں گزار رہے ہیں‘فلسطینیوں کی نسل کو ختم کیا جا رہا ہے اس عمل کو انگریزی میں جینوسائیڈ (Genocide) کہتے ہیں اگر کسی یو رپی یا افریقی ملک میں عیسائی یا یہودی قوم کا جینیو سائیڈ ہوتا تو پوری دنیا میں ہنگا مے ہو تے، ٹیلی وژن چینلوں پر اس کے خلاف بڑے تواتر کے ساتھ پرو گرام لائے جا تے‘اقوام متحدہ کو حرکت میں لا یا جا تا، انسا نی حقوق کی تنظیمیں حرکت میں آجا تیں‘ جنیو سائیڈ یا نسل کشی کو روکنے کا اہتمام وا نصرام ہو تا مگر یہاں جن کی نسل کو ختم کیا جا رہا ہے وہ نسلی لحا ظ سے عرب اور مذہبی لحا ظ سے مسلمان ہیں‘ عالمی طاقتوں کے سامنے دونوں بے وقعت ہیں 24سال پہلے کا واقعہ ہے ایشیا کا چھوٹا جزیرہ مشرقی تیمور انڈونیشیا کا صو بہ تھا، انڈو نیشیا مسلمان ملک ہے مشرقی تیمور کی اکثریتیآبادی رومن کیتھو لک عیسائی ہے انہوں نے کار لوس بیلو اور سنا نہ گسماؤ 
کی قیا دت میں انڈو نیشیا کے خلا ف گوریلا جنگ چھیڑی، جنگجو سرداروں کو سویڈش اکیڈیمی نے امن کا نو بل انعام دیا‘ مشرقی تیمور کو اقوام متحدہ نے 30اگست 1999کے دن انڈو نیشیا سے الگ کر کے آزاد ملک کا در جہ دیدیا، جبکہ اس خطے میں کشمیر ی 1948ء سے آزادی کی جدو جہد کر رہے ہیں، ریفرنڈم کا مطا لبہ کر رہے ہیں چونکہ مسلمان ہیں اس لئے کشمیریوں کو آزادی کا حق نہیں دیا جا تا کیونکہ وہ مسلمان ہیں اور ہندو ریاست سے آزادی کا حق ما نگ رہے ہیں‘ فلسطین کی 122روزہ جنگ میں 28ہزار مظلوم، معصوم اور نہتے فلسطینی شہید کئے گئے ہیں‘ ان میں سے 15ہزار ایسے بچے ہیں جنکی عمریں 6 ماہ اور 10سال کے درمیان تھیں، یہ بچے اور بچیاں ہسپتالوں اور سکولوں پر ہوائی بمباری میں اپنی جا نوں سے ہاتھ دھو بیٹھے، اس ظلم کا کوئی نوٹس نہیں لیا گیا کیونکہ حملہ آ ور طاقتور ملک ہے اقوام متحدہ کی سلا متی کونسل میں جنگ بندی کی قرارداد کو ویٹو کر تا ہے، انسا نی حقوق کے کمیشن میں فلسطین کا نا م لینے کی اجا زت نہیں دیتا‘ اسرائیلی فو ج ایک عالمی طاقت کی پراکسی (Proxi) لڑائی میں استعمال ہور ہی ہے‘ دنیا بھر کے تعلیمی اداروں میں پڑھا یا جا تا ہے کہ اکیسویں صدی سائنس اور ٹیکنا لو جی کی صدی ہے ترقی اور خو شحا لی کی صدی ہے‘ نئی ایجا دات کی صدی ہے‘لیکن غزہ کی مسلما ن آبادی اور فلسطینی ماؤں بہنوں، بیٹیوں کے لئے اکیسویں صدی ہلاکو خان اور چنگیز خا ن کی تیر ہویں صدی سے مختلف نہیں ہلا کو خان اور ان کا باپ چنگیز خان تیرہویں صدی میں ان انسا نی کھو پڑیوں کے مینار بنا تے تھے جو ان کے مقا بلے پر لڑنے کے لئے آتے تھے تلوار اٹھا تے تھے، وہ مر دانہ وار جنگ ہوا کر تی تھی جس میں عورتیں اور بچے بچیاں دشمن کی زد میں آنے سے محفوظ ہوا کر تی تھیں‘فلسطینی ماؤں کے لئے اکیسویں صدی خونخوار صدی ہے۔ 10ہزار کلو میٹر مغرب میں امریکی صدارتی انتخا بات جیتنے کے لئے غزہ میں فلسطینیوں کا خون بہا یا جا رہا ہے‘ جس پر اقوام متحدہ سمیت انسانی حقوق کے علمبردار ادارے اور مسلم امہ خاموش ہے۔ جی ہاں وہ جو تم بھول گئے فلسطینیوں کا خون تھا۔