الیکشن میں کامیاب ہونے والی ہر سیاسی پارٹی مرکز میں یا صوبوں میں حکومتیں بنانے میں لیت و لعل کا مظاہرہ اس لئے کر رہی ہے کہ اسے اچھی طرح پتہ ہے کہ ملک کی معشیت کی حالت بہت پتلی ہے‘ مجموعی صورتحال اتنی زیادہ گھمبیر ہے کہ وہ ایوان اقتدار میں بیٹھ کر ڈلیور نہیں کر پائے گی اور عوام کی نظروں میں گر جائے گی اور پھر کسی جماعت کو بھی اتنی سیٹیں نہیں ملیں گی کہ وہ مخلوط حکومت کے بغیر اپنا وزیر اعظم لا سکے اور یر پارٹی کے قائد کو بخوبی علم ہے کہ مخلوط حکومت کے ہاتھ پاؤں اس کے اتحادیوں نے باندھ رکھے ہوتے ہیں وہ ہر قدم پر اسے بلیک میل کرتے رہتے ہیں لہٰذا مختلف حیلوں اور بہانوں سے ہر سیاسی پارٹی حکومت بنانے سے گریز کر رہی ہے‘ ہر ایک کا خیال ہے کہ ایوان اقتدار سے پانچ سال باہر بیٹھنا اس کے لئے بہتر ہے‘اس دوران وہ جو بھی حکومت وقت ہوگی اس کے وہ لتے بھی لے سکے گی اور آئندہ الیکشن کے واسطے اچھی منصوبہ بندی بھی کر سکے گی۔ کوئی مانے یا نہ مانے‘ پر یہ حقیقت ہے کہ اگر ہم نے ملک کی بڑھتی ہوئی آبادی پر اس طرح کی پالیسی نہ اپنائی کہ جس طرح چین میں ماؤزے تنگ اور چو این لائی کی جوڑی کے دور حکومت میں بنائی گئی تھی تو ہمارا عوامی فلاح و بہبود کا کوئی بھی منصوبہ عوام کے مسائل کا مداوا نہیں کر سکے گا اس لئے ارباب اقتدار کو سب سے پہلے آبادی پر کنٹرول کیلئے جید علمائے کرام کی مشاورت سے خاندانی منصوبہ بندی بارے ایک جامع پراجیکٹ شروع کرنا ہوگا۔نئی نسل کو تعلیم کے ساتھ ساتھ اخلاقی تربیت دینا بھی ضروری ہے اخلاق سازی صرف حکومت کی ذمے داری نہیں ہوتی اس میں والدین کا بھی کلیدی کردار ہوتا ہے اگر ماں باپ بچوں کے سامنے سگریٹ کے کش لگائیں گے تو وہ بھلا پھر کیسے ان کو سگریٹ نوشی اور دوسری قسم کی منشیات سے منع کر پائیں گے۔کسی بھی قوم کو اگر تباہ کرنا مقصود ہو تو اس کا دشمن آج اسے اٹیم بم کے بجائے پراپیگنڈے کے ذریعے باآسانی مار سکتا ہے امریکہ میں کچھ عرصہ پہلے ایک سروے کے ذریعے چھوٹی عمر کے بچوں سے پوچھا گیا کہ ان کو ڈیڈی اچھا لگتا ہے یا ٹی وی تو 80 فی صد بچوں نے کہا‘ٹی وی۔کہنے کا مقصد یہ ہے کہ سوشل میڈیا پراپیگنڈے کا ایک نہایت ہی موثر ہتھیار بن چکا ہے‘ سوشل میڈیا اس کی تازہ ترین مثال ہے‘ اس پر جو مواد دکھایا جا رہا ہے اس میں نوے فیصد ایسا ہے جو کوئی غیرت مند فرد اپنے بال بچوں کے ساتھ اکٹھا بیٹھ کر نہیں دیکھ سکتا‘ ان پروگراموں سے کم سن بچوں کے اذہان کو ارادی یا غیر ارادی طور پر ایسے سانچے میں ڈھالا جا رہا ہے جو ہماری روایات اور اقدار کے خلاف ہے‘جس میں بڑے چھوٹے کی تمیز عنقا ہے‘ جس کے ذریعے ایسے کلچر کو فروغ دیا جا رہا ہے‘ ایسے طرز زندگی رہن سہن بودوباش کو چمک دمک کے ساتھ بتایا جاتا ہے جو ملک کی صرف دو فیصد آبادی کا تو مقدر ہو گا پر 98 فی صد آبادی اس سے محروم ہے اس کو تو بہ مشکل دو وقت کی باعزت روٹی میسر نہیں ہے‘ظاہر ہے جب ملک کی اتنی بڑی تعداد کے لوگ اس قسم کا طرز زندگی دیکھتے ہوں گے تو ان کے دلوں پر کیا گزرتی ہوگی کیا وہ احساس کمتری کا شکار ہو کر ان مراعات کے حصول کے لئے بے را ہ روی کا شکار نہ ہوتے ہوں گے اس قسم کے حالات میں پھر کمیونزم کیوں نہ پھیلے۔ملک میں چوری چکاری راہ زنی‘ ڈکیتی کے واقعات کیوں نہ زیادہ ہوں‘محرومیوں کے شکار نوجوان کیوں نہ شارٹ کٹ مار کر راتوں رات مال کما کر اس طرز زندگی کو اپنانے کی کوشش نہ کریں جس کوروزانہ انہیں دکھاتا رہتا ہے۔
یہ سب سوچنے کی باتیں ہیں‘ ان باریکیوں کو اگر نظر انداز کیا جاتا رہا تو اس ملک سے اخلاقیات کا جنازہ اٹھنے میں زیادہ وقت نہیں لگے گا۔صحت کارڈ بحالی کا اعلان ایک صائب اعلان ہے جس کے لئے خیبرپختونخوا کے نامزد وزیراعلیٰ مبارک باد کے مستحق ہیں جس طرح بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کو زبردست عوامی پذیرائی ملی ہے بالکل اسی طرح صحت کارڈ بھی عوام نے ازحد پسند کیا اس لئے جو بھی نئی حکومت بنے اسے ان دونوں پروگراموں کو جاری رکھنا چاہیے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔