ایک صائب بیان

عمر ایوب صاحب کا یہ بیان بڑا صائب بیان ہے کہ ان کی سیاسی پارٹی فرقہ واریت کے بجائے پاکستانیت پر یقین رکھتی ہے۔یہی تو مقام افسوس ہے کہ وطن عزیز کو قائم ہوئے سات دہائیوں سے زیادہ کا عرصہ گزر گیا ہے پر آج تک ہماری سیاست‘ سیاست دان اور ہم بحیثت قوم لسانیت قومیت اور برادری ازم کے چکر سے باہر نہیں نکلے‘ پاکستانیت کی سوچ ہم میں آج تک عنقاہے ‘ اس تقسیم کا ہمارے دشمنوں نے بھرپور فائدہ اٹھایا ہے کاش کہ اتنی ٹھوکریں کھانے کے بعد اب تو ہمیں ہوش آ جائے ۔ اس جملہ معترضہ کے بعد آج کے بعض اہم امور پر سرسری نظر ڈالنا بے جا نہ ہوگا ‘ الیکشن کا بخار بارہ دن گزر جانے کے بعد بھی نہیں ٹوٹا پاکستان کے حالیہ الیکشن کے بارے میں امریکہ اور چین نے جن خیالات کا اظہار کیا ہے ان کا اگر تقابلی جائزہ لیا جائے تو ان میں واضح فرق نظر آتا ہے ان کے مندرجات سے پاکستان کے بارے میں ان دو ممالک کی نیتوں کا عندیہ ملتا ہے ‘امریکہ کے تبصرہ میں دوغلا پن ہے اس کی ہر سطر میں تحکم کا عنصر ملتا ہے اور اس سے یہ تاثر ملتا ہے جیسے کہ وطن عزیز اس کی کوئی کالونی ہو‘ اس کے برعکس چین کی حکومت کا تبصرہ نہایت ہی سادہ زبان میں پاکستان کے حالیہ الیکشن پر اپنی نیک خواہشات کا اظہار کرتا ہے‘ امریکی تبصرہ پڑھ کر ہر ذی شعور پاکستانی کو خوشی کے بجائے اضطراب ہوتا ہے جب کہ چین کا تبصرہ اس میں ایک نیا ولولہ پیدا کرتا ہے۔ دوستی کی آ ڑ میں چھپے ہوئے دشمن اور کھلے دوست میں یہی تو فرق ہوتا ہے جے یو آئی کے مولانا غفور حیدری صاحب نے بڑے پتے کی بات کہی ہے کہ الیکشن میں ملک کی بڑی سیاسی جماعتیں جیتنے کے باوجود اپنے آپ کو اس قابل اور اہل نہیں سمجھتیں کہ وہ ملک کو درپیش مسائل حل کرنے کے قابل اور اہل ہیں جب ہی تو وہ ایوان اقتدار میں بیٹھنے سے کترا رہی ہیں۔ اس ملک میں ہر الیکشن پر حکومت وقت جو خرچ کرتی وہ اخراجات اپنی جگہ پر جو امیدواروں کو اسمبلی میں پہنچنے تک الیکشن پر خرچ کرنا پڑتے ہیں وہ بھی عام آدمی کی مالی دسترس سے باہر ہیں‘ صرف سرمایہ داروں کی جیب ہی ان اخراجات کی متحمل ہو سکتی ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق امیدواروں نے حالیہ الیکشن میں500 ارب روپے خرچ کئے ہیں‘اس لئے از حد ضروری ہے کہ 8 فروری کے الیکشن کے نتیجے میں جو بھی حکومت بر سر اقتدار آتی ہے ‘اسے فوراً سے پیشتر انتخابی اصلاحات کے ذریعے اس بات کو یقینی بنانا ہوگا کہ الیکشن میں اخراجات کا ایسا نظام وضع کرے کہ جس سے وطن عزیز کا ہر باسی اگر چاہے تو اسمبلیوں کے الیکشن میں حصہ لے سکے ۔ موروثیت کو بھی ملک کے سیاسی ڈھانچے سے ختم کرنے کے لئے اصلاحات لانا ضروری ہوں گی ۔ یہ بات تو اب طے ہے کہ موسمیاتی تبدیلی نے اس ملک کا موسمیاتی کلینڈر تبدیل کر کے رکھ دیا ہے‘ اس کی وجہ سے ارباب اقتدار کو آئندہ موسم گرما اور پھر موسم سرما کے لئے امسال کے درجہ حرارت اور اس تبدیلی کی وجہ سے پیدا ہونے والی بیماریوں اور دیگر تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے حفظ ماتقدم کے طور پر مدافعتی پروگرام تشکیل دینے ہوں گے تاکہ مستقبل میں عوام کو ان تکالیف سے بچایا جا سکے ‘جس کا وہ 2024 میں موسمیاتی تبدیلی کے کارن شکار ہوئے۔ حکومت نے فارما سیوٹیکل کمپنیوں کو اپنی مرضی کی قیمتوں پر ادویات فروخت کرنے کی جو اجازت دے دی ہے‘ اس سے کئی ادویات کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافے کا خدشہ ہے‘سترہ ارب روپے سے طورخم سے جلال آباد تک شہرا ہ بنانے کا فیصلہ اس لحاظ سے ایک دور اندیشانہ فیصلہ ہے کہ اگر دوسرے مرحلے میں افغانستان اور ایران تعاون کر کے جلال آباد سے ہرات تک ایک بڑی سڑک تعمیر کر دیں تو پاکستان اور ایران کے درمیان سفر بہت آسان ہو جائے گا۔
‘ اس صورت میں اگر علی الصبح کوئی مسافر پشاور سے روانہ ہو گا تو وہ شام سے پہلے ایران کے شہر مشہد پہنج سکے گا جہاں آج کل اسے پہنچنے کیلئے پورے دو دن لگ جاتے ہیں ‘اس سڑک سے ان تینوں ممالک میں تجارت کے کئی نئے مواقع بھی پیدا ہو جائیں گے ۔