پنجاب کی پہلی نامزد خاتون وزیر اعلیٰ مریم نواز صاحبہ نے اگلے روز اپنے صوبے کی پارلیمانی پارٹی کے اراکین سے جو خطاب کیا وہ بڑا جامع تھا انہوں نے پنجاب میں وہ آئندہ پانچ سال میں جو ترقیاتی کام کرنا چاہتی ہیں ان کا احاطہ کر کے جو روڈ میپ دیا وہ قابل قدر تھا اور ایسے لگتا تھا کہ ان کو اس بات کا پورا پورا ادراک ہے کہ کون کون سے فوری نوعیت کے کرنے کے کام ہیں ‘ان کی تقریر نے ناظرین اور سامعین کو کافی متاثر کیا ‘ اب خدا کرے کہ وہ اپنے روڈ میپ کو پانچ سال کے اندر اندر عملی جامہ پہنائیں جس کےلئے ان کو قابل وزراءاور سول انتظامیہ کی ٹیم درکار ہوگی ۔ خدا لگتی یہ ہے کہ آج اس ملک کے عوام کا سیاسی شعور کافی بیدار ہو چکا ہے اور ہر سیاسی پارٹی کے رہنما اچھی طرح جان چکے ہیں کہ اگر انہوں نے عوام دوست منصوبے نہ چلائے تو ایوان اقتدار میں ان کا قیام بہت مختصر ہو سکتا ہے اب کی دفعہ ارباب اقتدار کو عوام سے کئے وعدوں کو پانچ سال کے اندر پورا کرنا ہوگا ورنہ ان کا اس ملک کی سیاست میں کردار ختم ہو سکتا ہے اور پانچ سال بعد میں ہونے والے الیکشن میں ان کا صفایا ہو سکتا ہے‘ اب آنےوالی برسر اقتدار حکومت کو انتخابی اصلاحات کے ذریعے انٹرا پارٹی الیکشن میں موروثی سیاست کو ختم کرنا ہو گا۔ لگ یہ رہا ہے کہ چونکہ جماعت اسلامی کا مزاج ملک کی کسی بھی دوسری جماعت سے میل نہیں کھاتا‘ اسلئے وہ آج ملک کے سیاسی میدان میں اکیلی کھڑی نظر آ رہی ہے ۔ پاکستان میں تعینات روسی سفیر نے بالکل درست کہا ہے کہ امریکہ پاکستان اور روس کے درمیان قریبی تعلقات نہیں دیکھ سکتا اور اس کی یہ کوشش ہے کہ ان میں دراڑ پڑے‘ انہوں نے یہ بھی کہا ہے کہ اس الزام کی تصدیق نہیں ہو سکی کہ یوکرائن کو پاکستان نے اسلحہ بھیجا ہے ‘کسی نے بالکل درست کہا ہے کہ یہ پراپیگنڈہ کر کے کہ پاکستان یوکرائن کو روس کے خلاف جنگ میں اسلحہ سپلائی کر رہا ہے ‘امریکہ روس کا پاکستان سے دل کھٹا کرنا چاہتا تھا ‘ سوشل میڈیا کے بارے میں ملک کے سیاسی اور سماجی حلقوں میں ایک غیر ضروری بحث چھڑ گئی ہے کہ اسے ہونا چاہئے یا نہیں ‘ اس کی بندش یا اس کی آزادی کے بارے میں اوٹ پٹانگ باتیں کر کے عوام کی توجہ اس بنیادی سوال سے نہیں ہٹانا چاہئے کہ کیا اس پر جو مخرب الاخلاق قسم کا مواد ڈراموں‘ اشتہاروں یا دیگر پروگراموں کے ذریعے ناظرین تک پہنچایا جا رہا ہے اسے کیا والدین یا گھر کے بڑے بوڑھے اپنے دیگر اہل خانہ کے ساتھ اکٹھا بیٹھ کر دیکھ سکتے ہیں۔
‘کیا الیکٹرانک میڈیا سوشل میڈیا کے ذریعے اس کلچر کو فروغ نہیں دیا جا رہا کہ جس کا وطن عزیز کے زمینی حقائق سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہے ۔کیا اسے سیاست دان ایک دوسرے کی کردار کشی کے لئے استعمال نہیں کر رہے؟ ان سوالات کے جوابات ڈھونڈ کر اس ملک کے ارباب بست و کشاد کو فیصلہ کرنا ہے کہ سوشل میڈیا کو کس حد تک بحال کرنا ضروری ہے ۔؟