وطن عزیز کو کئی اچھے حکمران بھی ملے ہیں جن کو اس ملک کا عامآ دمی اچھے الفاظ سے یاد کرتا ہے اچھے آدمی سے مراد یہ ہے کہ اپنے ہاتھوں میں تمام اختیارات کے باوجود انہوں نے ان کا غیر قانونی استعمال نہ کیاہو‘معاملات زندگی میں ہمیشہ قناعت کا شیوہ اپنایا ہو‘ امیر اور غریب کو ایک نگاہ سے دیکھا ہو اور اپنی بودوباش اور رہن سہن ملک کے عام آدمی کی طرح رکھے ہوں‘ اس ملک کا کونسا اعلیٰ منصب ہو گا کہ جس پر غلام اسحاق خان نے کام نہ کیا ہو‘ سیکرٹری جنرل وزارت خزانہ‘ سینٹ کے چیئرمین اور پھر صدر پاکستان کا عہدہ ‘ان سب پر وہ فائز رہے ‘پر ریٹائرمنٹ کے وقت ان کی ذاتی زمین اتنی ہی تھی جو ان کو ورثے میں اپنے والد سے ملی تھی‘ اس میں ایک انچ کا بھی اضافہ نہیں ہوا تھا ‘اپنے ذاتی کاموں کے واسطے نہ وہ سرکاری وسائل استعمال کرتے اور نہ اپنے بچوں کو اس کی اجازت دیتے ‘ہمارے ایک سابق صدر جنرل سکندر مرزا کی ریٹائرمنٹ کے بعد ان کی مالی حالت اتنی پتلی تھی کہ جب وہ لندن میں جلاوطنی کی زندگی گزار رہے تھے تو اپنے لئے نان نفقہ پیدا کرنے کے واسطے ان کو وہاں ایک اوسط درجے کے ہوٹل کی اسسٹنٹ منیجری کرنا پڑی تھی اس ملک کے پہلے وزیراعظم لیاقت علی خان کے قتلکے بعد چونکہ رہائش کیلئے ان کی اہلیہ کا کوئی ذاتی گھر نہ تھا اور نہ ہی دو وقت کی روٹی کھانے کے واسطے پیسے‘ تو حکومت نے انہیں ہالینڈ میں اپنا سفیر مقرر کیا تاکہ ان کی رہائش اور نان نفقہ کا بندوبست ہو سکے ۔ مالی طور پر سردار نشتر ‘ملک معراج خالد اور اورنگزیب خان گنڈہ پور کا بھی کم و بیش یہی عالم تھا‘ حالانکہ سیاسی طور پر یہ سب لوگ کافی اثرو رسوخ کے مالک تھے اور اگر چاہتے تو اپنا ذاتی اثر و رسوخ استعمال کر کے کافی دھن بنا سکتے تھے۔ سیاست کے ساتھ ساتھ اگر فنون لطیفہ کا بھی ہلکا سا ذکر ہو جائے تو کیا قباحت ہے۔ لالی ووڈ نے ایک اچھا دور بھی دیکھا ہے کہ جس میں ملک بھر میں 1500 کے قریب سینما گھر بن چکے تھے‘ جن میں سینما بین اتنے زیادہ ہوتے تھے کہ تل دھرنے کو جگہ نہیں ہوتی تھی اور ہاﺅس فل کا بورڈ رکھنا پڑتاتھا‘آج یہ تعداد گھٹ کر 150 تک گر چکی ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اب اس معیار کی فلمیں نہیں بن رہیں جیسے کہ وعدہ‘ انار کلی‘ گمنام‘ قاتل‘ ہیر رانجھا ‘ باجی ‘سہیلی‘ شہید ‘سرفروش ‘انتظار ایسا بھی ہوتا ہے ‘نائلہ ‘انجمن اور تہذیب وغیرہ ہوا کرتی تھیں ‘ایک ایسا دور بھی گزرا ہے کہ جب پاکستان میں لالی ووڈ کے ساتھ ساتھ بالی وڈ کی فلمیں بھی نمائش کے لئئے پیش ہوتی تھیں اور وہ بالی ووڈ کی فلموں کا ڈٹ کر مقابلہ کرتی تھیں ۔1965ءکی پاک بھارت جنگ کے بعد جب پاکستان کے سینما گھروں میں بھارتی فلموں کی نمائش بند ہو گئی تو ہماری فلموں کا معیار اس لئے گر گیا کہ مقابلے کا عنصر مارکیٹ سے ختم ہو گیا تھا‘ جب غیر معیاری فلمیں بننے لگیں تو لوگوں نے سینما گھروں کا رخ چھوڑ دیا اور اس کے رد عمل میں پھر سینما گھروں کے مالکان نے اپنے آپ کو نقصان سے بچانے کے واسطے اپنے سینما گھروں کو شادی ہالوں میں تبدیل کر دیا ‘ ایک عرصے سے اب ملکہ ترنم نور جہان ‘ زبیدہ خانم ‘اقبال بانو‘ مہدی حسن جیسے گلوکار اور گلوکارائیں نہیں پیدا ہو رہے اور نہ ہی خورشید انور اور رشید عطرے‘ماسٹر عبداللہ اور سلیم اقبال جیسے موسیقار سامنے آ رہے ہیں ۔
اب سنتوش کمار ‘حبیب لالہ سدھیر آغا طالش ‘علاﺅالدین جیسے کریکٹر ایکٹر بھی ناپید ہیں اور نہ نیر سلطانہ‘ٰصبیحہ اور شیمم آراء جیسی اداکارائیں نظر آ رہی ہےں۔