آج کل ہر ذی شعور پاکستانی اس انتظار اور سوچ میں ہے کہ نئی حکومت کا روڈ میپ کیا ہونا چاہئے اس بات میں تو کوئی دو آ راءہو ہی نہیں سکتیں کہ دال دلیے کا مسئلہ ہر پاکستانی خصوصاً غریب کا سر فہرست مسئلہ ہے اور وطن عزیز کیآ بادی کی اکثریت کی آمدنی اتنی کم ہے کہ اسے دن میں دو وقت کی روٹی کا حصول مشکل پڑ رہا ہے‘ ضروری ہو گیا ہے کہ ہر سیاسی جماعت میں جو ماہرین معیشت ہیں وہ اور ان کے ساتھ ان جماعتوں کے قائدین سر جوڑ کر بیٹھیں اور اس مسئلے کا حل نکالیں‘ غیر ضروری اخراجات کو ختم کرنا ہوگا‘ حکمرانوں کو اب اس ملک کے عام آدمی کا رہن سہن اور بودوباش کو مد نظر رکھ کر اپنی زندگی گزارنا ہو گی‘ ان کو اب اتنے پاو¿ں پھیلانے ہوں گے کہ جتنی ان کی چادر ہے ‘بالفاظ دیگر ان کو وی وی آئی پی کلچر کو خیرباد کہنا پڑے گااور اس کا عملی مظاہرہ کرنا ہوگا تاکہ ان کی دیکھا دیکھی اشرافیہ بھی ان کا طرز زندگی اپنائے‘سامان تعیش کی امپورٹ کم کرنا ہوگی‘ بڑی بڑی گاڑیوں کے استعمال پر پابندی لگا کر چھوٹی گاڑیوں کے استعمال کو فروغ دینا ہو گا‘ سابق صدر غلام اسحاق خان کی یہ بات نہ جانے
کیوں یاد آ رہی ہے کہ پیسے درختوں پر نہیں اگتے لہٰذا ہر حکومت کو اپنے اخراجات پر سخت کنٹرول کرنا اشد ضروری ہے‘۔آج کل وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی تشکیل کے بارے میں ارباب بست و کشاد غورو خوص کر رہے ہیں ان کو ملک کی مخدوش مالی صورت حال کو مد نظر رکھتے ہوئے کابیناﺅں کا سائز مختصر رکھنا ہوگا‘ اس بات میں کوئی مضائقہ نہیں اگر وزراءکی تعداد کو اس تعداد سے نصف کر دیا جائے جو پچھلے چار پانچ برسوں میں وفاق اور صوبوں میں رہی ہے‘آ خر ایک وزیر کو ایک سے زیادہ محکموں کا وزیر بنا نے میں کیا قباحت ہے‘ مشکل مالی حالات میں ہم سب کو بشمول وزراءزیادہ سے زیادہ بوجھ اٹھانا ہو گا‘یہ اقدام ملک کی معیشت کو درست کرنے کی راہ میں پہلا قدم ہو گا۔ ٹیکس سسٹم کو موثر اور منصفانہ بنانے اور اس میں حصہ بقدر جثہ کے اصول پر عمل کرتے ہوئے
ڈائریکٹ سٹینڈرڈ آف لیونگ ٹیکس سرمایہ داروں پر لگایا جائے جتنے محل نما وسیع و عریض بنگلوں میں وہ رہائش پذیر ہوں اور ان کے بنگلوں میں کروڑوں روپوں کی جتنی لگژری گاڑیاں کھڑی ہوں اور سال میں جتنے بیرون ملک ان کے چکر لگتے ہوں اور جتنے بیرون ممالک اور اندرون ملک مہنگے ترین تعلیمی اداروں میں ان کے بال بچے زیر تعلیم ہوں ٹیکس لگاتے وقت ان سب حقائق کو مد نظر رکھا جائے ۔زرعی اصلاحات اور انتخابی اصلاحات وقت کا تقاضا ہے ‘موروثی سیاست کا خاتمہ بھی ضروری ہے اور ہر سیاسی جماعت کے پارٹی فنڈ کی ہر سال ایک مرتبہ آڈٹ بھی یہ معلوم کرنے کے واسطے کہ کون کون سے لوگ اس کی مالی معاونت کر رہے ہیں بہت لازمی ہے۔ ملک سے ممنوعہ بور کے اسلحہ کے خاتمے کے لئے ضروری ہو گا کہ آرمز لائسنس کے قوانین میں فوری ترمیم کر کے وہ تمام ممنوعہ بور اسلحہ کے لائسنس منسوخ کر دئیے جائیں جو گزشتہ کئی عرصے سے جاری کئے جا رہے ہیں اور اس قسم کے اسلحہ کو ریکور کرنے کے واسطے ایک کریک ڈاو¿ن کیا جائے اور ریکوری کے بعد یہ اسلحہ پولیس اور افواج پاکستان کے حوالے ہو۔ ملک میں برطانیہ کی طرز کا نیشنل ہیلتھ کا پراجیکٹ شروع کیا جائے۔