وفاق اور صو بوں میں نئی حکومتیں بننے کے بعد خود کفا لت کا ذکر باربار ہو رہا ہے‘ مختلف زاویوں سے ہور ہا ہے، سنگاپور اور ملائشیا کی مثا لیں دی جا رہی ہیں‘ نظام معیشت کے جدید نظریات کا ذکر بھی ہو رہا ہے ‘اسلا می تعلیمات کے حوالے بھی دیئے جا رہے ہیں ‘اس بحث میں ایک بات کی کمی محسوس کی جا رہی ہے جس بات کا ذکر اب تک کسی نے نہیں کیا وہ بات یہ ہے کہ پا کستان کے میدانی اور پہاڑی علا قوں میں خود کفا لت کا بے مثال نمو نہ ہماری روا یتی معا شرت اور ثقا فت میں مو جود رہا ہے ‘اس نمو نے سے فائدہ اٹھا یا جا سکتا ہے یہ نمو نہ ان پڑھ لو گوں کی ساد گی دور اندیشی اور ایثار و قربانی کا نمو نہ ہے‘ ان بنیا دی صفات کی بدولت ہمارے میدانی اور پہا ڑی علا قوں میں عام لو گوں کو اپنے گھر سے با ہر دیکھنے اور دوسروں سے تو قعات یا امید یں وابستہ کر نے کی کبھی ضرورت نہیں پڑ تی تھی، قرض کو بے حد معیوب سمجھا جا تا تھا‘ اگر 160گھرا نوں کے گاﺅں یا محلے میں کسی ایک شخص پر قرض چڑھتا تو اس کو اعتبار اور بھر وسہ کے قابل نہیں سمجھا جا تا تھا ہر گھر کا بجٹ ہوتا تھا، اس بجٹ کے مطا بق انا ج، لکڑی، سبزی، کپڑے وغیرہ کا حساب ہو تا تھا خواتین اور بچے اگر کسی مو قع پر نئے کپڑے اور جو تے ما نگتے تو ان کو بتا یا جا تا تھا کہ مو جودہ سال اس کی گنجا ئش نہیں، یہ سن کر وہ اپنی ضد چھوڑ دیتے تھے ہر گھر میں خوراک کی راشن بندی ہو ا کر تی تھی کیونکہ گھر سے با ہر اشیا ئے خوراک کے لئے بھا گنا معیوب تصور کیا جا تا تھا، اور محدود آمدنی والا کنبہ بھی گھر کے اندر اپنی ضروریات پوری کرتا تھا‘ ہر گھر خود کفیل ہوتا تھا اور ہر گاﺅں خود کفیل ہوتا تھا‘ دولت مند بھی اپنی دولت کی بے جا نما ئش نہیں کر تا تھا‘ اس لئے شادی یا غمی کے موا قع پر اس کی دولت ہمسایوں اور رشتہ داروں کے کام آتی تھی نچلی سطح پر کفا یت شعا ری اور منصو بہ بند ی کا ایسا خوشگوار اثر ہو تا تھا کہ ایک گاﺅں یا محلہ دوسرے گاﺅں یا محلے کا محتاج نہیں ہو تا تھا، اور ملک یا صو بہ بھی کسی اور ملک یا صو بے کے سامنے ہاتھ نہیں پھیلا تا تھا ہمارے بڑوں کا روا یتی طریقہ کا ر بہت سادہ اور بیحد مفید ہوا کرتا تھا ‘وقت گذر نے کے ساتھ جن گھرانوں، قوموں اور ملکوں نے اس قدیم ثقا فت کو زندہ رکھا وہ نئے دور میں بھی خود کفیل ہوگئے، کسی کے محتاج نہیں ہوئے، ممتاز روحا نی شخصیت سابق بیور و کریٹ سید سر فراز شاہ صاحب نے اپنی کتاب کہے فقیر میں اس کی طرف اشارہ کر تے ہوئے بڑی بات کہی ہے وہ کہتا ہے کہ میں آج اپنے جرم اور اپنی نا کا می کا اعتراف کر تا ہوں میری نسل کے لو گ 90سال کی عمر کو پہنچ چکے ہیں ہماری نسل سے پہلے ہمارے جوآ باءو اجداد تھے انہوں نے محتاجی سے پا ک اور قرض سے بے نیاز گھر، گاﺅں اور ملک ہمارے حوالے کیا تھا، ہم اپنی آنے والی نسل کو محتاج اور قرض دار ملک چھوڑ کے جا رہے ہیں، یہ اعتراف بہت بڑی حقیقت ہے‘ نئی حکومتوں کو اور نو منتخب اراکین اسمبلی کو اس پر غور کرنا چاہئے ‘بر طانیہ کے باد شاہ اور امریکی صدر کا پروٹو کول پا کستان کے کسی بھی حکمران کے ساتھ اچھا نہیں لگتا‘ اگر سرکاری پروٹو کول ختم کیا جا ئے تو قومی خزا نے کو خسارے سے بچا یا جا سکتا ہے‘ اٹھار ہویں تر میم کے بعد وفاق میں 23محکموں کو ختم ہونا چا ہئے تھا جیسا کہ تعلیم، صحت، زراعت، خوراک، سما جی بہبود، سیا حت، کھیل وغیرہ مگر سارے محکمے اسی طرح قائم ہیں اور کھربوں روپے ان پر خر چ ہورہے ہیں، اٹھار ہویں تر میم کا ملک اور قوم کو خا ص فائدہ نہیں ہوا خود کفا لت کےلئے ہم کو اپنے روا یتی نمو نے پر عمل کر کے اگلے 10سال میں ملک کو قرضوں کے بو جھ سے آزاد کرنا چاہئے اور یہ مشکل کام نہیں دوسری قوموں نے اس پر عمل کر کے دکھا یا ہے۔
اشتہار
مقبول خبریں
روم کی گلیوں میں
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ترمیم کا تما شہ
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ثقافت اور ثقافت
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
فلسطینی بچوں کے لئے
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
چل اڑ جا رے پنچھی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ری پبلکن پارٹی کی جیت
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
10بجے کا مطلب
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
روم ایک دن میں نہیں بنا
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
سیاسی تاریخ کا ایک باب
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی