ایک دور تھا اور یہ کچھ زیادہ عرصے کی بات نہیں کہ جب وطن عزیز میں سینما کلچر اپنے عروج پر تھا اور ملک بھر میں سینما گھروں کی تعداد 1500کے قریب جا پہنچی تھی‘آج وہ گھٹ کر 100ہو چکی ہے 1965ء تک ملک کے ہر شہر میں اگر ایک سینما گھر میں کوئی پاکستانی فلم دکھائی جا رہی ہوتی تو دوسرے میں ہندوستانی‘اور ان دونوں میں باکس آفس پر زیادہ کمائی کرنے کا مقابلہ بھی ہوتا‘ یہ سلسلہ 1965ء کی پاک بھارت جنگ تک چلتا رہا کہ جب پاکستان میں بھارتی فلموں کی نمائش پر پابندی لگ گئی‘اگر آپ پاکستانی فلموں کی فہرست پر ایک تنقیدی نظر ڈالیں تو آپ اس نتیجہ پر پہنچیں گے کہ لالی وڈ میں اگر کوئی بہترین فلمیں تخلیق ہوئیں تو 1948اور 1965ء کے درمیانے عرصے میں ہی ہوئیں‘ جیسا کہ فلم وعدہ‘ گمنام‘قاتل‘ باجی‘ سہیلی‘نائلہ‘ انتظار‘ انار کلی‘ کرتار سنگھ‘ نیند‘ کوئل‘ ارمان‘ موسیقار‘ہیررانجھا‘درشن‘ دامن‘جھومر‘ زہر عشق‘ایاز‘ سرفروش‘دلا بھٹی وغیرہ‘جب پاکستانی فلموں کا معیار گرنا شروع ہوا تو فلم بینوں نے سینما گھروں کا رخ اختیار کرنا چھوڑ دیا جس کی وجہ سے پھر مالی نقصان سے بچنے کے لئے سینما مالکان نے اپنے سینما گھر یا تو بند کر کے ان میں مارکیٹیں بنا ڈالیں اور یا پھر ان کو میرج ہالز میں تبدیل کر دیا‘اس دوران ملک میں وی سی آر کا چلن بھی عام ہوا اور پرانے فلم بینوں نے سینما گھروں میں جانے کے بجائے نئی ہندوستانی سمگل شدہ فلموں کی وڈیوز وی سی آر پر اپنے گھروں میں بیٹھ کر دیکھنا شروع کر دیں‘ ماضی قریب میں سینما کلچر کو بحال کرنے کی ایک نیم دلانہ کوشش ضرور کی گئی ہے اور Cineplexکے نظریہ کو عام کیا گیا ہے‘ پر اس کے ٹکٹ اتنے مہنگے ہیں کہ وہ عام آدمی کی مالی دسترس سے باہر ہیں‘ ہمیں یاد ہے جس دور کاہم ذکر کر رہے ہیں وہ 1975ء تک جاری تھا‘ پشاور کی پہلے بات کر لیتے ہیں پشاور شہر میں تصویر محل‘ ناولٹی‘پکچر ہاؤس‘ ناز فردوس اورمیٹرو نامی پرانے سینما گھر موجود تھے‘ صابرینہ اور دیگرگھر تو بعد میں بنے۔چھاؤنی میں کیپٹل اور لینڈز ڈان جو بعد میں فلک سیر کہلایا‘دو سینما گھر تھے آج ان میں سے کسی کا نام ونشان نہیں ملتا‘اسی طرح نوشہرہ‘ہری پور‘ کوہاٹ‘ بنوں‘ ڈیرہ اسماعیل خان وغیرہ میں بھی سینما گھر تھے‘ ان کے ٹکٹ بہت سستے تھے جس زمانے کی ہم بات کر رہے ہیں‘اس میں ایک روپے میں سولہ آنیوالی کرنسی چلا کرتی‘ہر سینما گھر میں مختلف کلاسز ہوتی تھیں پرانی کرنسی میں بارہ آنے سے لے کر ڈھائی روپے کے اندر ان کلاسز میں فی سیٹ مل جایا کرتی تھی‘ ہزاروں لوگوں کا روزگار بھی ان سینما گھروں کی وجہ سے موجود تھا اب تو جیسے یہ سب کچھ قصہ پارینہ ہو چکا ہے۔ چند روز قبلغزل گائیکی میں نام کمانے والے برصغیر کے ممتاز گائیک پنکج اوداس بھی اس جہان فانی سے کوچ کر گئے ان کا شمار غزل گائیکی کے ان عظیم گلوکار وں کی فہرست میں شامل کیا جا سکتا ہے کہ جس میں استاد برکت علی خان جگجیت سنگھ‘ پنکج ملک‘ مہدی حسن‘اقبال بانو‘ مبارک بیگم ایس بی جان‘ استاد امانت علی اور جگ موھن شامل ہیں۔اب آتے ہیں کچھ موسمی تبدیلی کی جانب‘ غالب امکان یہ ہے کہ امسال رمضان شریف کے پہلے دس پندرہ روزے موسمی لحاظ سے کافی سرد ہوں گے‘موسیمیاتی تبدیلی نے وطن عزیز کا موسمی کیلنڈر تبدیل کر کے رکھ دیا ہے اور لگ یہ رہا کہ اس سال سردی کا طولانی موسم بہار کو کھا رہا ہے جو ہر سال 14 فروری کو شروع ہو جایا کرتا تھا پر اب یہ نظر آ رہا ہے کہ امسال وہ کہیں جا کر مارچ کے اوائل میں شروع ہو۔ پرنس ہیری اپنے بڑے بھائی ولیمز سے بہت مختلف ہے‘ ہیری بھی ٹرمپ ہی کی طرح کا ایک لا ابالی شخص ہے جس کو انگلستان کے عوام بھی اچھی نظر سے نہیں دیکھتے وہ اپنے بڑے بھائی ولیمز سے بہت مختلف ہے اور ان دونوں بھائیوں کے آ پس میں تعلقات بھی کشیدگی کا شکار ہیں‘ ماضی قریب میں انگلستان کے شاہی خاندان کی اگر کسی نے لاج رکھی تھی تو وہ مرحومہ ملکہ الزبتھ تھیں ورنہ ان کی بہن پرنسس مارگریٹ ان کی بیٹی پرنسز این اور کنگ چارلس کو چھوڑ کر ان کے باقی بیٹوں کے کردار قابل رشک نہیں قرار دئیے جا سکتے۔