خیبر پختونخوا عہد قدیم سے با کمال شخصیات کا مسکن رہا ہے ‘ایسی با کمال شخصیات میں بڑی تعداد علماءاور فضلا ءکی رہی ہے، صوبے کے شمال میں سابق ریا ست چترال کو یہ اعزاز حا صل ہے کہ مشکل حا لات اور راستوں کی دوری، مسافت کی تکا لیف اور صعوبتوں کے باو جود ریا ست چترال کے فر زند وں نے دور دور جا کر دین کی تعلیم حاصل کی‘ بازار کہنہ چترال کے مولانا غلا م رسول اور مولانا علی مر دان کا شمار اس دور کے نامور علماءمیں ہوتا ہے مولانا غلام رسول کا زما نہ محترم شاہ کٹور ثا نی کا دور حکومت تھا جو 1838ءمیں اختتام پذیر ہوا، ان کا بیٹا مولانا علی مر دان بھی بڑے پا یے کا عالم قاری اور فقیہہ تھا، اس زمانے میں یہاں با قاعدہ مکا تب ومدارس قائم نہیں ہوئے تھے ‘طالب علموں کو ایک دوسرے سے پو چھ کر مختلف کتا بوں کے اساتذہ کا پتہ لگا نا پڑتا تھا‘ پھر ان کے گھر جا کر تعلیم حا صل کرناہو تا
تھا ‘یا ر حسین مردان، الپوری اور چکیسر سوات میں ایسے علماءتھے جو فنون یعنی صرف، نحو ادب وغیرہ پڑھا تے تھے، پشاور کی تالاب والی مسجد نمک منڈی میں فقہہ کی تعلیم ہوتی تھی، تفسیر اور دورہ حدیث کے لئے تہکال کی ”پوخ جما ت“ پکی مسجد میں اسا تذہ ملتے تھے، داخل، خارج کی سندات نہیں تھےں‘ طالب علم خود کہتا تھا کہ میں نے فلاں فلاں کتابیں پڑھی ہیں تو استاد اس کو اگلی کتاب کا سبق شروع کراتاتھا ‘مولانا علی مردان
نے علوم کی تکمیل کے بعد حجاز مقدس کا سفر اختیار کیا۔ حج بیت اللہ اور زیا رت مدینہ منورہ کے بعد واپس وطن آکر بازار کہنہ کی مسجد میں باپ کی جگہ امامت اور خطابت کے فرائض انجام دیئے 100 سال سے زیا دہ عمر پائی 1932ءمیں ان کی وفات ہوئی، ان کے بیٹے مولانا عبد الرﺅف گھر پر اپنے باپ کے سامنے زانوئے تلمذ تہہ کر کے فنون کے ساتھ منقولات اور معقولات کی تعلیم حاصل کی ۔تفسیر، حدیث اور فقہ میں کا مل دسترس حا صل کی، دستا ر فضیلت حا صل کرنے سے پہلے ہی باپ نے انہیں اپنی جگہ مسجد کی اما مت سونپ دی‘ اس لئے نو جوانی میں امام کہلا ئے اور یہ نا م ان کا عرف بن گیا، مولانا عبدالرﺅف کی شادی بروز کے قاضی کی صاحبزادی سے ہوئی تو قاضی صاحب نے بازار کہنہ میں اپنی جا ئیداد بھی اپنی
بیٹی کو دے دی ۔یوں غلہ، اناج اور چارہ، گھاس وغیرہ میں خود کفالت ملی، مولانا عبدالرﺅف نے اپنے بڑے بیٹے عبد الدیان کو دینی علوم کی تکمیل کے لئے ہندو ستان بھیجا جہاں انہوں نے مفتی کفایت اللہ کے مدرسہ امینیہ سے دستار فضیلت حاصل کی، وطن واپسی پر انہیں ریا ست چترال کا مفتی اعظم مقرر کیا گیا اس منا سبت سے عمر بھر وہ مفتی اعظم کہلا یا، امام صاحب کے دوسرے بیٹوں نے مروجہ دنیوی تعلیم حا صل کی۔ مفتی عبد الدیان نے دار العلوم اسلا میہ چترال میں درس و تدریس کے ساتھ بازار کہنہ کی مسجد میں اما مت و خطا بت کے فرائض بھی انجام دیئے۔ ان کے بیٹوں نے دینی اور دنیوی تعلیم حا صل کر کے شعبہ تعلیم میں خد مات انجام دیں۔ مولانا عبد الرﺅف المعروف امام صاحب کا فیض آج بھی جا ری ہے
ہر گز نمیرد آں کہ دلش زندہ شد بعشق
ثبت است بر جریدہ عالم دوام ما