رمضان المبارک کے آغاز پر ہم پوری امت مسلمہ کو مبارکیاد پیش کرتے ہیں۔ حکومت وقت نے رمضان پیکجز کا ایک جامع پروگرام مرتب کیا ہے کہ جس سے روزہ کھولنے کے لئے ہر ناچار کے پاس خوراک کا مناسب بندوبست ہو گا ۔امسال لگ یہ رہا ہے شاید ماہ صیام کا پہلا پندرھواڑہ موسمیاتی لحاظ سے سرد ہو کیونکہ بہار کا تا دم تحریر دور دور تک نشان نظر نہیں آ رہا ۔مالی طور پر پسماندہ عوام کے واسطے وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے اشیا ئے خوردنی کے سستے رمضان پیکجز کا جو اعلان کیا ہے وہ اپنی جگہ قابل تعریف اقدام ہیں پر ان سے بھی زیادہ جو ضروری بات تھی وہ یہ تھی کہ ملک کا ایسا معاشی نظام ہوتا کہ جس میں ہر شخص کی جیب میں اتنا پیسہ ہوتا کہ اسے اس قسم کے پیکیجز کی ضرورت ہی نہ پیش آ تی ۔جن تاجروں نے اشیائے خوردنی کا ذخیرہ کیا ہوا ہے ان کے گوداموں کو سیل کر کے ان سے برآمد شدہ ذخیرہ کی گئی اشیا ئے خوردنی کو بحق سرکار ضبط کرنا بھی ضروری ہے اور ان ذخیرہ اندوزوں کو جیل کی ہوا کھلا کر انہیں نشان عبرت بنانا بھی اور ذخیرہ کی گئی اشیا ءکو نیلام عام کرنا بھی ‘حکام ان ذخیرہ اندوزوں کے فوٹو اخبارات میں بھی چھپوائیں تاکہ عام آ دمی کو پتہ چلے کہ کون ہیں وہ لوگ جو خوف خدا نہیں رکھتے کیونکہ اب تو وطن عزیز میں کئی سالوں سے ہمارے اکثر تاجر رمضان کے ماہ میں ان اشیا ئے خوردنی کی قیمتوں میں ہوش ربا اضافہ کر دیتے ہیں کہ جن کی اس ماہ میں بے پناہ کھپت ہوتی ہے اور چند دنوں میں بے پناہ مال کما لیتے ہیں ان کو expose کرنا بہت ضروری ہے ‘چاہئے تو یہ تھا کہ ہماری تاجر برادری رمضان المبارک میں از خود اشیائے خورد و نوش کے نرخوں میں کمی کا اعلان کرتی یا کم از کم اتنا ہی کرتی کہ ناجائز منافع خوری سے اجتناب کرتی اورمقررہ قیمتوں پر صارفین کو اشیائے خورد و نوش فراہم کرتی تو قوم کی نظروں میںان کی قدر میں اضافہ ہوتا۔ مقام شکر ہے کہ امسال ملک بھر کے
اکثر مقامات پر رمضان شریف کا مہینہ ایک ہی دن شروع ہونے کی نوید ایک عرصہ دراز کے بعد ملی ہے اور امید ہے کہ امسال ملک بھر میں عیدالفطر بھی ایک ہی دن منائی جاے گی ۔ان ابتدائی کلمات کے بعد دیگر اہم حالات حاضرہ کا اب ذکر کرنے میں کوئی مضائقہ نہیں‘ چین‘ ایران اور افغانستان کے سربراہان نے آ صف علی زرداری کو پاکستان کے صدر کا حلف اٹھانے کے بعد جو مبارکبادی کے پیغامات ارسال کئے ہیں وہ نہایت ہی حوصلہ افزا ہیں اور ان کے مندرجات سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ تینوں ملک وطن عزیز کے لئے خیر سگالی کے جذبات رکھتے ہیں اور اس خطے میں پاکستان سے مل کر زندگی کے مختلف شعبوں میں کام کرنے کو تیار ہیں‘ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ دنیا میں اگر صحیح معنوں میںدنیا کی سپر پاورز میں ہمارا کوئی دوست اور ہمدرد ملک ہے تو وہ چین ہے جس کے ساتھ پاکستان کے نئے حکمرانوں کو مزید یک جہتی کا مظاہرہ کرنا ضروری ہے ‘اسی طرح روس کے ساتھ بھی ہماری حکومت کو اپنے تعلقات مزید بڑھانا وقت کا تقاضا ہے‘ جہاں تک ایران اور افغانستان کا تعلق ہے وہ ہمارے ہمسایہ ممالک ہیں وہ ہمارے اتنے قریب ہیں کہ اگر ان کو جب چھینک آ تی ہے تو اس سے ہمیں زکام ہو جاتا ہے ان دونوں ممالک کے ساتھ ہماری بارڈر مینجمنٹ کو بہتر بنانے کی اشد ضرورت ہے کیونکہ آ ئے دن پاک افغان اور پاک ایران بارڈر پر متعین بارڈر فورسز کے اہلکار چھوٹی چھوٹی باتوں پر ایک دوسرے کے خلاف بندوقیں تان لیتے ہیں جس سے غیر ضروری تلخیاں پیدا ہو جاتی ہیں ۔مسلم لیگ ن کے ایک سینئر رہنما کے مطابق پاکستان کوقرض ادائیگی کے واسطے 700 ارب روپے کی ضرورت ہے اور یہ کہ ہمیں اپنے پاﺅں پر کھڑا ہو نے کیلئے دو سال کا عرصہ درکار ہے ان کے اس انکشاف سے ضروری ہو گیا ہے کہ ہم اپنی کمر کس لیں اور بحیثیت قوم اور حکمران اسراف سے اجتناب کریں اور سرکاری اخراجات میں زیادہ سے زیادہ کمی کریں‘اسی صورت وطن عزیز کو مسائل و مشکلات کے بھنور سے نکالا جا سکتا ہے اور ملک کی معاشی حالت بھی سدھر سکتی ہے ۔