ظلم اور بربریت کی انتہا 

ہٹلر بھی بڑا ظالم انسان تھا اس نے بھی دوسری جنگ عظیم میں اپنی انسان کش پالیسیوں سے لاکھوں انسانوں کا قتل عام کیا تھا پر لگتا ہے کہ آج کے دور میں اسرائیلیوں نے اس کا بھی ریکارڈ توڑ دیا ہے جس بے دردی اور اذیت ناک طریقے سے وہ فلسطین میں بے گناہ بچوں بوڑھوں اور خواتین کا قتل عام کر رہا ہے اس کی مثال تاریخ میں صرف ہلاکو خان کے کئے جانے والے مظالم سے ملتی ہے‘ اسرائیلیوں نے یکم رمضان کے دن بھی اپنی بربریت نہ چھوڑی اور غزہ پر حملے کے دوران 67 افراد کو موت کی گھاٹ اتارکر فلسطینیوں کے زخموں پر نمک چھڑکا ہے فلسطینوں پر اسرائیل جو ظلم اور بربریت کے پہاڑ ڈھا رہا ہے ‘ ان کو دیکھ کر ہمیں 1967ءمیں اسرائیل اور مصر کے درمیان ہونے والی چھ روزہ جنگ پر ایک سابقہ معروف برطانوی وزیر اعظم سر ونسٹن چرچل کے بیٹے اور پوتے کی لکھی ہوئی کتاب The six day war یاد آ گئی اس کتاب کے مطالعے سے اسرائیل کی جنگی حکمت عملی اور عزائم کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے اس کتاب کے مصنفین نے یہ واضح کر دیا تھاکہ اسرائیلی حکومت نے اپنی فوج کے ساتھ ساتھ اپنی تمام سویلین آ بادی کے لئے بھی ملٹری ٹریننگ لازمی قرار دے دی ہے اور اسرائیل میں رہنے والے ہر فرد کو اس کی عمر کے لحاظ سے فوج کے مختلف شعبوں میں ضروری عسکری تربیت دینی شروع کر دی ہے ان مصنفین نے اس کتاب میں لکھا کہ کسی بھی ملک کے ساتھ جنگ چھڑ جانے کی صورت میں اسرائیل کی حکومت 24 گھنٹوں کے اندر اندر 72 ہزار باقاعدہ عسکری تربیت سے لیس سویلین افراد کو بھی فوج کے شانہ بشانہ میدان جنگ میں اتار سکتی ہے‘ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ اگر تو اسلامی دنیا نے اسرائیل یا کسی بھی دوسرے ملک کی ہٹ دھرمی یا ریشہ دوانی کا پامردی سے مقابلہ کرنا ہے تو اسے اپنی فوج کے ساتھ ملک کے ہر فرد کو بھی جدید جنگی تربیت دینی ہو گی نیز چین کی مثال سے سبق لیتے ہوئے ملک کی معاشی حالت سدھارنا ہو گی اور سائنس و ٹیکنالوجی کے فروغ کی طرف خصوصی توجہ دینا ہو گی یہودی اتنی دور اندیش قوم ہے کہ اس نے ایک پلاننگ کے ذریعے امریکہ جیسی سپر پاور کی معیشت کو اپنے کنٹرول میں لے رکھا ہے اس کے میڈیا پر اس کی دسترس ہے کوئی بھی امریکی امریکہ کا صدر بننے کا سوچ بھی نہیں سکتا اگر اسے امریکی یہودی لابی کی آشیرباد حاصل نہ ہو۔ افسوس کہ آج مسلم ورلڈ میں کوئی بھی ایسا دوراندیش لیڈر نظر نہیں آ رہا کہ جو ایسے ذہن کا مالک ہو کہ نہ صرف اپنے ملک کی معشیت ‘تعلیم اور صحت کے شعبوں کو جدید تقاضوں کے مطابق استوار کرنے کے ساتھ عالم اسلام کو ایک ہی پلیٹ فارم پر جمع کر سکے اوآئی سی کے نام سے ایک ادارہ موجود تو ہے پر خدا لگتی یہ ہے کہ وہ بہت ہی غیر موثر ہے اور اس کا ہونا نہ ہونے کے برابر ہے۔ان چند ابتدائی کلمات کے بعد اب ذرا بعض دیگر عالمی اور قومی معاملات پر ایک طائرانہ نظر ڈال لینے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب منیر اکرم نے بڑے پتے کی بات کی ہے کہ پاکستان کی ترقی میں قرض بڑی رکاوٹ ہے اور یہ کہ قرض کی ادائیگی متعدد ترقی پذیر ممالک بشمول پاکستان کے لئے ایک اہم مسئلہ ہے‘ انہوں نے یہ بھی درست کہا ہے کہ اقوام متحدہ اس مسئلے سے نمٹنے میں اپنا مضبوط کردار ادا کرے ‘پاکستانی مندوب کا یہ کہنا بھی سو فیصد درست ہے کہ صنفی مساوات اور موسمیاتی تبدیلیوں سے بھی دینا کے غریب ممالک نبرد آزما ہیں اور یہ کہ فلسطین اور مقبوضہ کشمیر میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا نوٹس لینا بھی اشد ضروری ہے۔ وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف کے اس بیان کو ملک کی لکیر سے نیچے رہنے والے ان کروڑوں افراد نے سراہا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے کہ مٹھی بھر افراد90فیصد وسائل پر قابض ہیں اور یہ کہ اشرافیہ کیلئے سبسڈی کا کوئی جواز نہیں کہ جسے وہ ختم کریں گے ۔ادھر وزیر خزانہ کے مطابق آئی ایف میں جانا ناگزیر ہے اور رواں ہفتے میں مذاکرات شروع ہوں گے ۔