صدر زرداری اور وزیر داخلہ محسن نقوی نے ملک کو درپیش مالی بدحالی کے پیش نظر تنخواہیں نہ لینے کا جو فیصلہ کیا ہے وہ قابل ستائش ہے ‘قوم اسی قسم کے فیصلوں کی توقع ملک کے دیگر ارباب بست وکشاد سے بھی رکھتی ہے‘ اسی ضمن میں یہ بات قابل ذکر ہے کہ جس زمانے میں چین میں ماﺅزے تنگ اور چو این لائی کی جوڑی برسر اقتدار تھی تو اس دور میں چینی حکمرانوں نے ملک میں سادگی اور قناعت کا چلن عام کرنے کے واسطے بعض اچھی مثالیں قائم کیں مثلاً چین میں جب کبھی بھی کوئی اعلیٰ سطح کی میٹنگ ہوا کرتی یا مہمان ملک کا کوئی وفد بیجنگ میں پیپلز ہال میں چین کے ارباب اقتدار سے ملاقات کرنے آ تا تو میٹنگ یا ملاقات کے دوران شرکاءکی خاطر تواضع صرف سبز چائے یعنی قہوہ سے کی جاتی ہمارے اپنے بانی پاکستان قائد اعظم کے بارے میں ان کے ایک اے ڈی سی نے لکھا ہے کہ ایک مرتبہ جب اس نے بانی پاکستان سے یہ پوچھا کہ سر کل آپ نے گورنر جنرل ہاﺅس میں کابینہ کی میٹنگ کی صبح دس بجے صدارت کرنی ہے میٹنگ کے شرکاءکے لئے کافی کا بندوبست کیا جائے یا چائے کا‘ تو انہوں نے کہا کی کیا میٹننگ کے شرکا گھر سے ناشتہ کر کے نہیں آئیں گے‘ اس کے بعد جب کبھی بھی گورنر جنرل ہاﺅس میں کوئی بھی میٹنگ قائد اعظم کی صدارت میں ہوتی تو میٹنگ کی میز پر سادہ پانی کے جگ اور گلاس رکھے جاتے ‘ کہنے کا مقصد یہ ہے کہ سرکاری پیسوں پر نہ حکمران اللے تللے کرتے اور نہ غیر ملکی مہمانوں کی مہمان داری کے نام پر قومی خزانے کو مال مفت دل بے رحم کی طرح استعمال کیا جاتا ‘ان حقایق کا ذکر یہاں پر ہم نے اس لئے کیا کہ ایک دنیا جانتی ہے کہ ہر ملک میں ایوان اقتدار میں موجود ارباب بست و کشاد کے کھانے پینے اور متفرق اخراجات جیسا کہ بجلی گیس اور پانی کے ماہانہ بل سرکاری خزانے سے ہی ادا کئے جاتے ہیں‘ اس لئے اگر یہ صاحب اقتدار لوگ تنخواہیں نہ بھی لیں یا ان کی ماہانہ تنخواہوں کے سکیل کو اگر کم بھی کر دیا جائے تو کیا مضائقہ ہے‘ بہر صورت صدر اور وزیر داخلہ کا مندرجہ بالا قدم ملکی سیاست میں ایک تازہ ہوا کے جھونکے کے مترادف ہے جس کی جتنی بھی تعریف کی جائے کم ہے ان چند ابتدائی کلمات کے بعد ہم بعض تازہ ترین عالمی اور قومی امور کا ہلکا سا تجزیہ کریں گے ۔اگلے روز خیبرپختونخوا کے وزیر اعلیٰ اور وزیر اعظم کے درمیان ورکنگ ریلیشن شپ کے واسطے کمیٹی کے قیام پر اتفاق ایک مثبت اقدام ہے اور اس سے مرکز اور صوبے دونوں میں باہمی اتفاق سے جو فیصلے کئے جائیں گے وہ فیڈریشن کی تقویت کا باعث بنیں گے ‘وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ پنجاب سرکاری اداروں کی کارکردگی کو مانیٹر کرنے کے واسطے ان کے دفاتر پر جو اچانک چھاپے مار رہے ہیں‘ وہ قابل تعریف بات ہے‘ پر بہتر یہ ہوگا کہ اگر ڈویژنل کمشنرز اور ڈپٹی کمشنرز بھی یہ کام بلا تعطل شروع کر دیں‘ کسی زمانے میں ہر مہینے ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ ضلعی سطح پر کرمنل اور ریونیو عدالتوں میں دائر کیسز کے فیصلوں کی رفتار کا جائزہ لینے ہر ماہ ایک دن تمام ریونیو افسروں کا اجلاس بلایا کرتے تھےیہ خبر تشویش ناک ہے کہ ترقی پذیر ممالک میں سیگریٹ کی کھپت میں اضافہ ہو رہا ہے اور یہ کہ پاکستان تمباکو نوشی کرنے والے ممالک میں ساتویں نمبر پر ہے اس میں کوئی شک نہیں کہ سیگریٹ نوشی سے اس ملک کے لوگوں کی ایک بڑی تعداد عارضہ قلب اور دمے کے موذی امراض کا شکار ہو رہی ہے اور یہ کہ ہیروئن کے ساتھ ساتھ اب آئس نامی نشہ آ ور پاوڈر کا استعمال بھی وطن عزیز میں کثرت سے پھیل رہا ہے جو نئی جنریشن کو تباہ کر رہا ہے۔
چب تک اس گھناﺅنے کاروبار میں ملوث افراد کو عبرتناک سزا نہیں دی جاتی اس کاروبار کا خاتمہ مشکل ہے۔