اگر پا کستان کی حکومت اعلیٰ تعلیم کے بجا ئے فنی تربیت ٹیکنیکل ایجو کیشن اور ووکیشنل ٹریننگ پر تو جہ دے تو پا کستان کے اندر کار خا نے لگا نے میں ملکی اورغیر ملکی سرمایہ کاروں کو سہو لت ہو گی ، نیز پا کستانی کا ریگروں کو بیرون ملک جا کر بہتر روز گار اور بہتر ذریعہ معاش کے حصول میں بھارتی اور بنگلہ دیشی نو جوانوں کا مقا بلہ کرنے میں آسانی ہو گی ۔یہ بات ایک کا لم نگار یا قلم کار نہیں لکھ رہا بلکہ ملکی اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کے ایک بڑے گروپ نے ان خیا لات پر مبنی رپورٹ جا ری کی ہے ‘گروپ کا کہنا یہ ہے کہ پاکستان میں سرمایہ کاری کی راہ میں غلط قوانین ، ناروا پا بند یاں اور بد عنوا ن حکام بھی رکاوٹ ہیں ‘تا ہم بڑی رکا وٹ یہ ہے کہ پا کستان میں کسی بھی انڈسٹری کے لئے افرادی قوت دستیاب نہیں‘بھا رت اور بنگلہ دیش سے افرادی قوت کو پا کستان لانا ممکن نہیں ، سری لنکا ، تھا ئی لینڈ اور فلپائن یا نیپال سے کاریگر بلانے کا آپشن بھی موجود نہیں مجبوراً ہم پاکستان سے ہاتھ کھینج لیتے ہیں اور انڈسٹری وہاں لگا تے ہیں جہاں افرادی قوت دستیاب ہو اور با قاعدہ ہنر مند افرادی قوت ہو ، مختلف شعبوں کے ما ہر کاریگر ہاتھ آجا ئیں تو انڈسٹری لگا نے کےلئے دیگر تما م رکا وٹیں دور کی جا سکتی ہیں ‘یہ باتیں تجربہ کار سر ما یہ کار وں کی ہیں ہم جیسے عام لو گ یعنی انگریز ی تر کیب کی رو سے لے مین (Lay man) بھی اپنے ارد گرد مشا ہدہ کر کے اس بات کی تصدیق کر سکتے ہیں ایک متوسط گھرا نے میں 2بیٹیاں اور 3بیٹے پڑھ رہے تھے سب نے 16سال لگا کر بی ایس کر لیا ، بی ایس کرنے کے بعد بے روز گار بیٹھے ہیں ، ماں باپ نے اپنا پیٹ کا ٹ کر ان کی اعلیٰ تعلیم پر جو سرمایہ لگا یا وہ سرما یہ ضا ئع گیا کیونکہ ان میں سے ایک بھی اس قابل نہیں کہ ماں باپ کی زند گی میں ان کو دو وقت کی روٹی کما کے دے سکے یا اپنے پاﺅں پر کھڑے ہو کر اپنی روزی روٹی کما سکے‘ اولاد میں سے جس کو
بھی بی ایس کے چار سا لہ کورس میں داخلہ ملا تو ماں باپ خو شی سے پھو لے نہیں سما رہے تھے‘ 8سمسٹر پورے ہوئے تو پتہ لگا کہ اولا د کو غلط راستے پر ڈال دیا گیا تھا‘ اس ڈگری کی کوئی منزل نہیں تھی‘ اس تعلیم کا کوئی فائدہ نہیں تھا‘ مجبوری یہ تھی کہ ماں باپ اپنی اولا د کو پڑھا نا چا ہتے تھے‘ حکومت نے نو نہا لوں کو تعلیم دینے کے لئے کوئی بہتر اور با مقصد سسٹم نہیں دیا ‘پہلے بارہ جما عتیں پاس کر آﺅ‘ پھر چار سال لگا کر 16جما عتیں پا س کراﺅ پھر ان کو سڑک نا پنے پر لگا ﺅ‘ یہ ایسا تعلیمی نظام ہے جو اپنے آپ کو فریب دینے کے مترادف ہے۔ جا پا ن ، کوریا اور چین سمیت تر قی یا فتہ مما لک میں ایسا نہیں ہو تا وہاں 16سالہ ڈگری پرو گرام صرف 5فیصد طالب علموں کے لئے ہے‘ 95فیصد کو کاریگر بنا یا جا تا ہے‘ صرف ہنر سکھا یا جا تا ہے ، وہ لوگ ساتویں جماعت کے بعد 80 فیصد نو نہا لوں کے لئے ٹیکنیکل ایجو کیشن کا اہتمام کرتے ہیں‘ بقیہ 20فیصد میں سے 15فیصد کو انٹر میڈیٹ لیول کے بعد پیشہ ورانہ
تعلیم کے راستے پر ڈال دیتے ہیں ۔یہ وہی کھیپ ہے جو ڈاکٹر ، انجینئر اور اعلیٰ ترین کار کر د گی کے حامل آ فیسروں کی صورت میں آگے جا کر قوم کی خد مت کر تی ہے ، جو 15فیصد 16سالہ ڈگری پروگرام میں جا تی ہے اس کھیپ سے محقق ، پروفیسر اور دوسرے مفید لو گ مل جا تے ہیں جو ملک اور قوم کے کام آتے ہیں ‘پکی بات یہ ہے کہ اعلیٰ تعلیم کا مطلب صرف بے روز گار ی پیدا کرنا نہیں ہوتا بلکہ ملک کے لئے کار آمد شہری پیدا کرنا ہو تا ہے اور کار آمد شہری اُس وقت پیدا ہو تا ہے جب ملک کے اندر 80فیصد نو جوانوں کو ٹیکنکل اور ووکیشنل ٹریننگ دینے کا موثر ، جا مع اور مربوط سسٹم مو جود ہو ‘ہم سی پیک کا بڑا ذکرسنتے اور پڑھتے ہیں لیکن ہمیں سی پیک کا فائدہ صرف اُس صورت میں ہو سکتا ہے جب ہمارے پا س مختلف شعبوں کے لئے کم از کم 10لا کھ تر بیت یافتہ کا ریگروں کی ٹیم اپنی ذمہ دا ریاں سنبھا لنے کےلئے تیا ر ہو‘ اب بھی وقت ہے ہم اس مر حلے پر بھی کا م کا آغاز کر کے اگلے 5سال میں 10لا کھ نو جوانوں کو فنی تر بیت دے سکتے ہیں‘ یہ حقیقی اعلیٰ تعلیم ہو گی پھر سرمایہ کار آئینگے اور کار خا نے لگائینگے‘ اس طرح ملکی معیشت آگے بڑھے گی ۔