جب سکول میں ہمیں تاریخ کی بڑی جنگوں کے بارے میں پڑھا یا جا تا تھا تو جنگ کے اسباب واقعات اور نتا ئج کو الگ الگ پڑ ھا یا جاتا تھا اور سب سے زیا دہ زور جنگ کے نتا ئج پر دیا جا تا تھا گذشتہ پا نچ مہینوں سے فلسطین میں دسویں بڑی لڑا ئی جا ری ہے لڑا ئی ابھی ختم نہیں ہو ئی اس کے نتا ئج اور اثرات کی بحث چھڑ گئی ہے ایک بات اس کے اسباب اور اثرات دونوں میں آتی ہے اور وہ بات ہے نو مبر 2024 ءمیں امریکہ میں ہونے والے صدارتی انتخا بات میں ڈیمو کریٹک پارٹی کی انتخا بی مہم کے حوالے سے ہے ‘7اکتو بر 2023کو فلسطین کی نئی جنگ شروع ہوئی‘سوا پا نچ مہینوں کی یک طرفہ جنگ میںغزہ کی فلسطینی سرزمین کھنڈرات میں تبدیل ہوئی بے گنا ہ فلسطینیوں میں سے 55ہزار کو شہید کیا گیا 27ہزار شہری معذور ہوئے ، دشمن کے جنگی جہازوں نے خا ص طور گنجا ن آباد بستیوں پر بمباری کر کے ہسپتا لوں ، مسجدوں اور سکولوں کو نشا نہ بنا یا ، سڑ کوں اور پا نی کے منصو بوں کو برباد کیا ، ما رکیٹوں اور انا ج کے ذخیروں پر بمباری کی ، شہید ہونے والوں میں 22ہزار نا با لغ بچے بھی شا مل ہیں ، 7اکتو بر 2023سے اب تک غزہ کی پٹی چاروں طرف سے دشمن کے نر غے میں ہے ، خوراک اور ادویات لیکر غزہ میں داخل ہونے والی گاڑیوں کو نشا نہ بنا یا جا تا ہے زحمیوں کو با ہر نکا لنے والی کوئی ایمبو لینس دشمن کی بمبا ری سے محفوظ نہیں اقوام متحدہ کی ذیلی تنظیموں کے دفا تر بھی دشمن کے حملوں کی زد میں ہیں عا لمی ریڈکراس کے دفاتر بھی دشمن کے حملوں سے محفوظ نہیں عام طور پر یہ سمجھا جا تا ہے کہ اسرائیل کی طرف سے فلسطینیوں کا قتل عام کیا جا رہا ہے لیکن حقیقت میں یہ اسرائیل کی جنگ نہیں ایک بڑی طاقت کی جنگ ہے اس جنگ کے اثرات بہت دور رس نظر آ رہے ہیں سب سے پہلی بات یہ ہے کہ یو کرین کی جنگ نے دوسری عالمی طاقت روس کو کسی مظلوم قوم کی حما یت کے قابل نہیں چھوڑا چنا نچہ
فلسطینیوں کو دوسری عالمی طاقت کی طرف سے کوئی مدد نہ مل سکی اور یہ مسلمانوں کی بے بسی کا بڑا سبب ہے ایران ، شام اور یمن کی جنگوں میں روس کی طرف مسلمانوں کی بھر پور مدد کی گئی تھی اور کھلم کھلا مدد دی گئی تھی ، فلسطین کی جنگ کے اثرات میں سے دوسرا دور رس اثر یہ ہے کہ 1991سے پہلے 57اسلا می مما لک کا نا م لیا جاتا تھا وسطی ایشائی مما لک کی آزا دی کے بعد اسلا می مما لک کی تعداد 64ہو گئی تھی اسلا می ملکوں کی تنظیم او آئی سی کو موثر پلیٹ فارم کا در جہ دیا جا تا تھا افغانستان پر امریکی قبضے کی راہ ہموار کرنے کے لئے او آئی سی ہر سال دو یا تین غیر معمو لی اجلا س منعقد کر تی تھی ، مشرقی وسطیٰ اور خلیجی مما لک میں امریکہ کو فو جی اڈے فراہم کر وانے کے لئے او آئی سی کے چار خصو صی سر براہ اجلا س بلا ئے گئے تھے غزہ پر دشمن کے حملوں کو رکوا نے اور جنگ بند ی کروانے کے لئے او آئی سی کے ایک اجلا س کی بھی اجازت نہیں ملی 2017ءمیں 7اسلا می ملکوں کی مشترکہ فو ج بنا ئی گئی تھی اگر چہ اس فو ج کو ختم کرنے کا کوئی با ضا بطہ اعلا ن نہیں ہواتا ہم غزہ کی جنگ میں مسلمانوں کی کوئی فوج نظر نہیں آئی فلسطینی مسلمان ہونے کے ساتھ ساتھ عرب بھی ہیں عربوں کے پاس تیل اور گیس کے وافر ذخا ئر کی بے تحا شا دولت مو جود ہے عرب لیگ ہے ، خلیج تعاون کونسل بھی ہے مگر غزہ کے فلسطینی مسلمان دشمن کے سامنے بے بس ہوگئے عربوں کی دولت کام نہیں آئی ”گنتا جا شرما تا جا “ اس جنگ کا ایک اور دیر پا اثر سامنے آیا ہے جو عالمی تنا ظر میں سب سے زیا دہ افسوس نا ک ہے عالمی میڈیا نے باربار دکھا یا ہے کہ یہ صدی آزادی کی صدی نہیں اٹھارہویں صدی کی طرح نو آبا دیا تی غلا می والی صد ہے غزہ کے مظلوم فلسطینی امریکی انتخا بات کا ایندھن بن رہے ہیں دنیا کا کوئی ملک ان کے حق میں اواز نہیں اٹھا سکتا ، سب سے بڑی بات یہ ہے کہ امریکہ اور یو رپ کی انسا ن دوستی اور جمہوریت کا پرو پیگنڈا جھوٹا ثا بت ہوا ہے پرندوں کی جا ن بچا نے والوں نے 170دنوں کی یک طرفہ جنگ میں انسا نیت کے لئے آواز نہیں اٹھا ئی العرض دسویں فلسطینی جنگ کے اثرات کا احا طہ کرنا مشکل ہو گیا ہے ۔