دیر آید درست آید 

کہا جاتا ہے کہ اگر کسی نے انگلستان کے معاشرے کے بہترین دماغ دیکھنے ہوں تو وہ اس کے ہاﺅس آف کامنز کی پبلک گیلری میں جا کر کچھ لمحوں کےلئے وہاں ہونے والی بحث و مباحث غور سے سنے ہاﺅس آف کامنز نے کئی پارلیمانی نابغے پیدا کئے ان میں سے چند ایک کے نام یہ ہیں ڈسرایلی گلیڈسٹون اورونسٹن چرچل وغیرہ‘ ایک مرتبہ خان عبدالولی خان نے ہمیں بتایا تھا کہ ان کے والد غفار خان صاحب جن کو باچا خان کے نام سے یاد کیا جاتا ہے‘ نے اپنے ایک فرزند غنی خان کو لندن اسلئے بجھوایا تھا کہ وہ ایک سال تک ہاﺅس آف کامنز کی پبلک گیلری میں روزانہ بیٹھ کر یہ دیکھا کریں کہ اس کا سپیکر کس طرح ہاﺅس کے اجلاس کو کنڈکٹ کرتا ہے اور کس طریقے سے اس کے اراکین بحث و مباحث کرتے ہیں‘ دراصل وہ غنی خان کو بطور سیاست دان لانچ کرنا چاہتے تھے‘ یہ علیحدہ بات ہے کہ غنی خان کا میلان طبیعت کسی اور طرف تھا اور انہوں نے اپنے سیاست دان بننے کے برعکس بطور شاعر اور مصور بڑا نام کمایا ۔وطن عزیز کے پارلیمان میں بھی کئی نابغے گزرے ہیں کہ جو نہ صرف یہ کہ کئی زبانوں پر عبور رکھتے تھے وہ کافی پڑھے لکھے بھی تھے اور جب وہ کسی عنوان پر اسمبلی کے فلور پر بولتے تھے تو جیسے ان کے منہ سے پھول جھڑتے تھے ان میں سے چند ایک کے نام درج ذیل ہیں ‘حسین شہید سہروردی‘ ولی خان ‘سردار اورنگزیب گنڈہ پور ‘ مولوی فرید‘ ذوالفقار علی بھٹو‘ ممتاز دولتانہ ‘غوث بخش بزنجو وغیرہ اب تو ایک عرصے سے پارلیمنٹ میں بحث و مباحث کا معیار کافی گر گیا ہے‘ اراکین پارلیمنٹ اسمبلی کے فلور پر ایک دوسرے کےساتھ دست و گریبان ہو رہے ہیں‘ ایک دوسرے کے کپڑے تک پھاڑ رہے ہیں‘ کئی کئی مرتبہ پارلیمنٹ میں اتنا شور و غوغاہو جاتا ہے کہ جیسے وہ اسمبلی نہ ہو سبزی منڈی ہو۔ان جملہ ہائے معترضہ کے بعد درج ذیل تازہ ترین اہم قومی اور عالمی واقعات پر ایک تجزیہ پیش خدمت ہے‘ حکومت کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ ہی نہ تھا کہ وہ افغانستان کے اندر گھس کر ان ٹھکانوں پر حملہ کرے کہ جہاں دہشت گرد پاکستان کے اندر ہماری افواج پر حملہ کرنے کی سازش کرتے ہیں ۔چنانچہ اگلے روز پاکستان کاافغا نستان کے اندر جو آپریشن ہوا وہ اسی سلسلہ کی ایک کڑی ہے‘ پاکستان نے متعدد مرتبہ کابل حکومت کو گزارش کہ وہ افغانستان کے اندر موجود دہشتگردوں کے محفوظ ٹھکانوں کا خاتمہ کرے اور اس کی قیادت کو پاکستان کے حوالے کرے‘ پر افغانستان کے حکمرانوں نے اس پر کوئی پیشرفت نہیں کی اور پاکستان کی مسلسل خاموشی کو اس کی کمزوری سمجھا‘ لہٰذا تنگ آ مد بجنگ آ مدناگزیر ہو چکی تھی کہ اس سلسلے میں کاروائی کرے۔

امریکہ کا اس ضمن میں یہ بیان البتہ مضحکہ خیز ہے کہ پاکستان اور افغانستان اختلافات کا حل تلاش کریں ‘کیا اس خطے میں یہ جو سب کچھ ہو رہا ہے یہ امریکہ کی اس پالیسی کا تسلسل نہیں ہے جو اس نے اس علاقے میں روا رکھی ہے ‘بہر حال پاکستان اور افغانستان کے درمیان تازہ ترین کشیدگی وطن عزیز کے لئے خصوصاً اور عالمی امن کے واسطے عموماً کوئی اچھی چیز نہیں ہے ‘ہم کو جو مسائل درپیش ہیں کیا وہ کم تھے جو اب یہ نیا قضیہ اٹھ کھڑا ہوا ہے ‘ اب سفارت کاری کے ذریعے اس بات کا اہتمام کرنا ہوگا کہ یہ آگ مزید نہ پھیلے کیونکہ اس چیز کے خطرہ کو خارج از امکان قرار نہیں دیا جا سکتا کہ ہمارا ازلی دشمن بھارت اپنی سازشوں سے افغانستان کے اندر پاکستان کے خلاف غلط فہمیاں پھیلا کر پاکستان اور افغانستان کے درمیان خلیج کو مزید گہرا کرے وہ سپر پاورز جو اس خطے میں جاری چین کی معاونت سے ترقیاتی منصوبوں کو تباہ کرنا چاہتی ہیں وہ بھی اگر صورت حال ٹھیک ہونے کے بجائے مزید خراب ہو گئی تو اسے نقصان پہنچانے کی سعی کریں گی دیر آید درست آید ‘یہ امر خوش آئند ہے کہ خیبر پختونخوا حکومت کا رمضان پیکچ رواں ہفتے شروع ہونے والا ہے اور یہ خبر بھی اچھی ہے کہ امسال پورے 30 روزے ہوں گے اور عید 11 اپریل کو ہونے جا رہی ہے ۔نواز شریف صاحب کی حکومت کو دی جانے والی یہ رائے صائب رائے ہے کہ کب تک آئی ایم ایف کے کہنے پر بجلی گیس مہنگی ہو گی عوام کے صبر کو کتنا آز مائیں گے اور یہ کہ کسانوں کو سولر پینل دیں‘ پیسہ ان پر خرچ ہونا چاہیے ۔