وزیراعظم پاکستان کے اس بیان سے کوئی بھی محب وطن اختلاف نہیں کر سکتا کہ ملک کی اشرافیہ کوآئندہ کڑوے فیصلوں کا بوجھ اٹھاناہو گا SIFC‘اپیکس کمیٹی کے خصوصی اجلاس کو خطاب کرتے ہوئے انہوں نے بالکل بجا کہا ہے کہ تمام سیاست دانوں کو انا اور اختلافات ایک طرف رکھ کر ملک کو جائز مقام دلانا ہے۔ خواجہ آصف نے یہ کہہ کر عام پاکستانی کے دل کی بات کی ہے کہ اگر افغانستان سے دہشت گردی نہ رکی تو کابل کے لئے بھارتی راہداری بند کر سکتے ہیں ‘اب خدا کرے کہ ضرورت پڑنے کی صورت میں وزیر دفاع اپنے اس بیان کو عملی جامہ بھی پہنا سکیں کیونکہ تجربہ یہ بتاتا ہے کہ ماضی میں بھی اسی قسم کی بات کئی کئی مرتبہ کی گئی پر اس پر شاذ ہی عمل درآمد کیا گیا‘ سابقہ وزیر داخلہ سرفراز بگٹی نے چند ماہ قبل ایک حکمنامہ جاری کیا تھا کہ آئندہ کوئی بھی افغانی بغیر ویزا پاکستان کی حدود میں داخل نہیں ہو گا ‘قوم یہ جاننا چاہتی ہے کہ اب تک متعلقہ محکموں نے اس پر کیا عمل درآمد کیا ہے ۔چین کے صدر بولتے بہت کم ہیں مگر جب بھی وہ بولتے ہیں تو نہایت پتے کی بات کرتے ہیں ان کے اس تازہ ترین بیان سے اس خطے کا کوئی بھی شخص شاید ہی اختلاف کرے ‘انہوں نے کہا ہے کہ وسطی خطے کو متحرک کرنے کیلئے مشترکہ فورس تشکیل دینا ضروری ہے‘ سائنس و تکنیکی جدت طرازی کے ساتھ نئی معیاری پیدا واری صلاحیت کو فروغ دینا بھی ضروری ہے ان کے خیال میں مینو فیکچرنگ انڈسٹری اور بڑے پیمانے پر ساز و سامان کی تجدید کے منصوبوں کی تکنیکی اپ گریڈیشن کا مکمل نفاذکرنا ضروری ہو گا ‘نیز ماحولیاتی تحفظ ماحول دوست اور کم کاربن کی ترقی کو مربوط انداز میں فروغ دینا ہو گا انہوں نے خاص طور پر غربت کی طرف واپسی کو روکنے کے لئے نگرانی غرباءکی امداد کے طریقہ کار کو بہتر بنانے اور بڑے پیمانے پر غربت کی جانب پلٹنے کو روکنے کی اہمیت پر بھی زور دیا ہے اس سے بڑھ کر چینی صدر کی غریب عوام دوستی کا بھلا اور کیا ثبوت مل سکتا ہے کہ ان کو یہ فکر دامنگیر ہے کہ چین نے بیس برسوں میں عوام دوست پالیسیوں کے طفیل چین میں جو بیس کروڑ غربت کی لکیر سے نیچے رہنے والے لوگوں کو اس لکیر سے باہر نکالا گیا ہے کہیں وہ دوبارہ اس لکیر سے نیچے نہ چلے جائیں لہٰذا ایسا نظام مرتب کیا جائے کہ وہ دوبارہ اس لکیر کے نیچے نہ جائیں‘ یہ ہوتے ہیں صحیح معنوں میں عوامی لیڈر جن کو اپنے ملک کے غریب عوام کا غم ہر وقت ستاتا ہے جو اپنی ذاتی پبلسٹی کے بجائے قوم کی فلاح کے بارے میں ہر وقت سوچتے رہتے ہیں‘ وطن عزیز میں بھی کوئی اسی قسم کا مسیحا پیدا ہو جائے ‘چین اس لحاظ سے خوش قسمت ہے کہ ماﺅزے تنگ اور چو این لائی جیسے غریب پرور اور عوام دوست رہنماﺅں کے بعد بھی وہاں جو بھی قیادت آئی اس نے ماﺅزے تنگ کے معاشی فلسفے اور چو این لائی کی وضع کی گئی اندرونی اور بیرونی پالیسیوں کو جاری رکھا اور انہیں دوام بخشا یہ کارنامہ صرف چین کی کمیونسٹ پارٹی کے رہنماﺅں نے کر دکھایا اور اب چین کے موجودہ صدر کی کوشش ہے کہ ان لوگوں کی بودوباش کے واسطے ایسا سسٹم بنایا جائے کہ یہ دوبارہ غربت کا شکار نہ ہوں۔
‘اسے کہتے ہیں دوراندیشی جو چین کی لیڈرشپ میں کوٹ کوٹ کر بھری پڑی ہے‘ مغرب کے رہنماﺅں خصوصاً امریکی صدور نے ہر دور کمیونزم کے معاشی نظام میں طرح طرح کے کیڑے نکالنے کی کوشش کی ہے دوسری جنگ عظیم کے بعد ان کی تنقید کا زیادہ تر جو حدف تھا وہ روس کا مرد آ ہن لینن تھا اور جب لینن کے سیاسی منظر عام سے ہٹ جانے کے بعد ماﺅزے تنگ کی قیادت میں کمیونزم کے نظام معشیت نے چین میں سر اٹھایا تو مغرب کے رہنماوں نے ان کو ٹارگٹ کرنا شروع کر دیا جو ہنوز جاری و ساری ہے چین نے کمیونسٹ قیادت کے زیر سایہ زندگی کے ہر میدان میں 1949 ءسے لے کر اب تک جو ترقی کی ہے اس نے مغرب کو ورطہ حیرت میں ڈال دیا ہے تیسری دنیا کے غریب ممالک کے واسطے آج چین ایک رول ماڈل کے طور پر سیاست اور معشیت کے آسمان پر ایک روشن ستارے کی طرح چمک رہا ہے جس پر امریکہ انگشت بدندان ہے اسے سمجھ نہیں آ رہی کہ وہ کس طرح دنیا میں چین کے روز بروز بڑھتے ہوئے اثر و نفوذ کو روکے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔