پینڈورا دیو ما لا ئی روایات اور تو ہمات میں ایک یو نا نی داستان کی ہیروئین کا نا م ہے یہ نا م یو نا نی سے انگریزی میں آیا پھر انگریزی سے ہماری زبا نوں میں آیا جب پے در پے آفتیں اور مصائب آنے لگے تو کہتے ہیں ” پینڈ ورا با کس “ کھل گیا ہے ‘انگریزی میں یہ ترکیب Pindora's boxہے اور مصائب وآ لا م‘ آفات وبلیات کے لئے استعمال ہو تا ہے سیا ست اور سفارت کا ری میں یہ تر کیب زیا دہ استعمال ہوتی ہے کسی کو نر م الفاظ میں دھمکی دے کر خبردار کرنا ہو ‘کہا جا تا ہے باز آجا ﺅ ورنہ پینڈورا باکس کھل جا ئے گا‘ پینڈو را با کس کی دھمکی کو سن کر مخا لف فوراً اپنے ارادے سے باز آجا تا ہے۔ اگر کسی بڑے واقعے کے تہہ در تہہ کر داروں کو بے نقا ب کرنا ہو تو کہا جا تا ہے باز آجا ﺅ مجھے پینڈو را با کس کھولنے پر مجبور نہ کرو ، اگر مخا لف اپنی ضد اور ہٹ دھر می سے با ز نہ آتا ہو تو کہا جا تا ہے کہ سدھر جا ﺅ ورنہ پینڈورا با کس کھل جا ئے گا پھر تم کسی کو منہ دکھا نے کے قابل نہیں رہو گے چھ ہزار سال پہلے جن چیزوں کو آفت ، بلا اور مصیبت کا نا م دیا جا تا تھا‘ ان چیزوں کو آج کل آڈیو اور ویڈیو لیک کا نا م دیا جا تا ہے‘ سکینڈ ل بھی کہا جا تا ہے‘ اس لئے ہزاروں سال پرانی داستان کی ہیروئین کو آج بھی حوالہ اور استعارہ کے طور پر یا د کیا جا تا ہے۔ قدیم یونان میں جب تو ہمات کا دور تھا لو گ دیو تا ﺅں کی طا قت پر یقین رکھتے تھے اُس زما نے کی داستانوں اور کہا نیوں کا مر کزی خیال دیوتاﺅں کے گرد گھومتا تھا‘ ایسی ہی ایک داستان میں پینڈو را نا م کی ایک حسینہ ہوتی ہے‘ حسینہ ایسی ہو تی ہے جس کو جون ایلیا نے اپنی شاعری میں قتا لہ کا نا م دیا ہے ‘پینڈورا کے حسن و جمال نے دیو تاﺅں کو حیراں کر دیا ہے سارے دیو تا اُس کی زلفوں کے اسیر بنے ہوئے ہیں اور اس کو حا صل کر نے لئے ایک دوسرے پر سبقت لینے کی کو شش میں لگے رہتے ہیں ‘دوسرے دیوتاﺅں کو ما ت دینے کے لئے زیوس کی طرف سے پرو میتھیس کو ایک صندوق ملتا ہے ‘وہ صندوق کا تحفہ لا کر پینڈو را کو دیتا اور کہتا ہے کہ یہ پُر اسرار صندوق ہے ‘پوری دنیا میں جس طرح تمہارے حسن کا جواب نہیں اس طرح اس صندوق کی مثال نہیں جب تک میں نہ کہوں اس صندوق کو نہ کھولو ، پینڈورا مان لیتی ہے اور صندوق کی حفا ظت پر غلا موں اور کنیزوں کو مقرر کرتی ہے ، یہ بات سب کے لئے تجسس کا باعث بنتی ہے کہ صندوق میں کیا ہے‘ خود پینڈورا بھی ہر وقت سوچتی ہے کہ اس میں کیا ہے ، زرو جوا ہر کا انبار ہے ، دولت کا ڈھیر ہے ‘نا یا ب زیورات ہیں یا میرے من کی کوئی مراد ہے ‘اس تجسس کی وجہ سے پینڈورا کے صبر کا پیما نہ لبریز ہوتا ہے اور وہ صندوق کو کھول دیتی ہے ‘صندوق کھلتے ہی کیڑوں مکوڑوں کی شکل میں آفات بلا ئیں اور مصبیتیں با ہر آجا تی ہیں‘ جب لا کھوں کی تعداد میں آفتیں با ہر آتی ہیں تو پورا ما حول غموں سے گرد آلود ہو جا تا ہے‘ ہر طرف رونا دھونا شروع ہو جا تا ہے‘ پینڈورا خود بیمار پڑ جا تی ہے اور صندوق کو بند کرنے کا حکم دیتی ہے ‘صندوق بند ہوجا تا ہے لیکن آفتیں ختم نہیں ہو تیں‘ مصیبت کی اس گھڑی میں دیو تا آجا تا ہے ‘پینڈورا سے کہتا ہے تم نے میری بات نہیں ما نی اب صندوق مجھے دکھاﺅ ، جب صندوق لایا جا تا ہے تو دیو تا کہتا ہے اپنے کان کے قریب لے جا ﺅ اور سنو کیسی آواز آرہی ہے ؟ پینڈورا کان لگا کر آواز کو سنتی ہے اور کہتی ہے کہ مکھی بھنبھنا رہی ہے‘ دیو تا کہتا ہے صندوق کھو لو صندوق کھلتے ہی مکھی با ہر آجا تی ہے دیو تا کہتا ہے اس کانا م اُمید ہے چنا نچہ امید کے نمودار ہو تے ہی پینڈورا تندرست ہو جا تی ہے ‘آج کل پا کستانی قوم نے پینڈورا کا صندوق کھول کر خود کر مصیبتوں میں گرفتار کروا دیا ہے ‘ابھی تک قوم نے امید کی مکھی کو قید میں رکھا ہوا ہے ‘امید کی مکھی باہر آئیگی تو آفتیں ختم ہوجائیںگی۔
اشتہار
مقبول خبریں
روم کی گلیوں میں
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ترمیم کا تما شہ
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ثقافت اور ثقافت
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
فلسطینی بچوں کے لئے
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
چل اڑ جا رے پنچھی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ری پبلکن پارٹی کی جیت
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
10بجے کا مطلب
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
روم ایک دن میں نہیں بنا
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
سیاسی تاریخ کا ایک باب
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی
ڈاکٹر عنا یت اللہ فیضی