یہ نیرنگی سیاست نہیں تو پھر بھلا کیا چیز ہے کہ چند سال قبل تک تو ہم امریکہ کی شہہ پر روس کے خلاف افغانستان میں افغان مجاہدین کی بھرپور عسکری حمایت کر رہے تھے اور آ ج وزیر اعظم پاکستان روس کے صدر پیوٹن کو پاکستان آ نے کی دعوت دے رہے ہیں‘ اسی لئے تو مثل مشہور ہے کہ سیاست میں حرف آخر نہیں ہوتا‘ ویسے خدا لگتی یہ ہے کہ ہم نے 1947ء سے لے کر کچھ عرصہ پہلے تک امریکہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے واسطے خواہ مخواہ روس سے پنگا لیا ‘کیا 1960 ءکی دہائی میں ہم نے پشاور کے نزدیک بڈھ بیر کے مقام پر امریکہ کو ایک ہوائی اڈہ نہیں دیا تھا جہاں سے ایک امریکی جاسوس طیارہ روزانہ اڑان بھر کر روس جاتا اور وہاں ملٹری تنصیبات کی فوٹو گرافی کرتا‘ حتیٰ کہ ایک دن روس نے اسے گرا کر اس کے پائلٹ کو زندہ پکڑ لیا اور اس نے پھر تمام راز روس کو اگل دئیے‘ یہ تو خدا کا شکر ہے کہ اب کچھ عرصے سے ہمارے اور روس کے تعلقات خوشگوار ہیں‘ ہمارے ارباب بست و کشاد کو چاہیے کہ وہ اب امریکہ کے کہنے پر ایسا کوئی قدم نہ اٹھائیں جس سے ہمارے روس کے ساتھ تعلقات بگڑنے کا معمولی سا بھی خدشہ ہو‘ روس ہمارا ہمسایہ ملک ہے‘ دوست بدلے جا سکتے ہیں ہمسائے کبھی نہیں‘ وزیر اعظم نے روس کے صدر کو پاکستان کا دورہ کرنے کی دعوت دے کر ایک اچھا قدم اٹھایا ہے ۔ان ابتدائی کلمات کے بعد درج ذیل واقعات کا ذکر بے جا نہ ہوگا ۔خواجہ آصف صاحب نے یہ کہہ کر بڑے پتے کی بات کی ہے کہ انکم ٹیکس کے آدھے کیسز بھی حل ہو جائیں تو آئی ایم ایف سے جان چھوٹ جائے گی‘ یہ بات اس حد تک تو ٹھیک ہے کہ اگر انکم ٹیکس لگانے والے محکمہ نے ٹیکس لگاتے وقت قانون کو فالو نہیں کیا اور شہریوں کو حق حاصل ہے کہ وہ عدالت جا کر ان سے ہونے والی ناانصافی کا ازالہ کرائیں۔
یہ امر خوش آئند ہے کہ چین سولر سسٹم کے تمام آلات کے کارخانے پاکستان میں لگانے والا ہے جس سے اس ملک کے عام آدمی کو جب سستے دام پر سولر سسٹم کی سہولت ملے گی تو اس کی بجلی کے بھاری بھر کم بلوں سے جان چھوٹے گی۔