انگلستان کے ڈاکٹر ضعیف العمر افرادکو کہتے ہیں کہ وہ اینٹی بائیوٹک میڈیسن یا pain killer ادویات کا زیادہ استعمال نہ کیا کریں کہ اس سے گردے اور جگر متاثر ہوتے ہیں جبکہ اپنے ہاں اینٹی بائیوٹک کا کثرت سے استعمال ہوتا ہے‘ انگلستان میں کیمسٹ بغیر ڈاکٹر کی چٹ کے کسی کو بھی اینٹی بائیوٹک یا نشہ آور میڈیسن فروخت نہیں کر سکتے جبکہ اپنے ہاں اتنی باریکیوں کا خیال نہیں رکھا جاتا‘herbal میڈیسن کے استعمال کا رحجان آج کل بڑھ رہا ہے کیونکہ ان کے استعمال سے کم از کم انسانی جسم پر کوئی سائیڈ ایفکٹ نہیں ہوتا ۔ ماضی میں صحت کا رازخوراک کم کھانا‘ پانی زیادہ پینا ‘زیادہ سے زیادہ پیدل چلنا تھا‘آج لوگوں نے جی بھر کر پیٹ بھرنا شروع کر دیا ہے ‘ پانی پینا کم کر دیا ہے اور پیدل چلنا پھرنا تو بالکل چھوڑ دیا گیا ہے ۔junk food کا رواج عام ہے جو کیمیکلز سے بھرپور ہوتا ہے اور کئی بیماریوں کو جنم دیتا ہے بچوں کو اشتہاری کمپنیوں نے دلآویز اشتہارات دکھا دکھا کر برین واش کر کے جنک فوڈ کے استعمال کی طرف راغب کر دیا ہے ‘منشیات کا استعمال نئی نسل میں عام ہو چکا ہے یہ سب تباہی کی نشانیاں ہیں ‘والدین اور حکومت دو نوں خواب خرگوش میں مبتلا ہیں اور وہ اس روش کو روکنے کی کوشش نہیں کر رہے تو پھر شوگر کی بیماری کیوں نہ لگے ‘ عوارض قلب میں لوگ کیوں نہ مبتلا ہوں اور بلڈ پریشر کی بیماری کیوں نہ بڑھے‘صحت برقرار رکھنے کے لئے دوپہر کے کھانے کے بعد تیس منٹ تک قیلولہ کرنا بھی بہت ضروری ہے‘ برطانیہ کے وزیراعظم سر ونسٹن چرچل نے بھی لمبی عمر پائی تھی ان کا یہ معمول تھا کہ وہ روزانہ قیلولہ کیا کرتے تھے حتیٰ کہ دوسری جنگ عظیم کے دوران جب جرمنی ائر فورس کے طیارے سات آٹھ برس تک لندن پر بمباری کر رہے تھے وہ اس جنگ کے دوران بھی قیلولہ کیا کرتے ‘حکیم سعید صاحب کا معمول تھا کہ رمضان شریف کے روزوں کے علاوہ باقی ماندہ گیارہ ماہ میں بھی عیدین کو چھوڑ کر ہر ہفتے وہ روزہ سے ہوتے تھے ۔ اب تازہ ترین واقعات کا ایک ہلکا سا تجزیہ ہو جائے‘ مقام افسوس ہے کہ آج ملک کے ریاستی اداروں میں کوآرڈی نیشن کا فقدان ہے ایسا لگتا ہے کہ جیسے وہ ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچ رہے ہوں ایوب خان جب ملک میں 1958 کے دوران مارشل لا لگا رہے تھے تو انہوں نے اس وقت ایک بڑا معنی خیز جملہ کہا تھا کہ پارلیمانی جمہوریت اس ملک کے عوام کے مزاج سے میل نہیں کھاتی ‘کیا آج کے سیاست دان اپنے طرز عمل سے ایوب خان کے اس طنزیہ جملہ کو درست ثابت نہیں کر رہے کئی سیاسی مبصرین کے خیال کے مطابق ایوب خان اگر بنیادی جمہوریتوں کے اراکین کو صدر کے انتخاب کے واسطے الیکٹورل کالج نہ بناتے اور ان سے صرف ترقیاتی منصوبوں کا کام لیتے تو بی ڈی سسٹم موجودہ پارلیمانی نظام سے بدرجہا بہتر تھا۔اب جب کہ ملک میں الیکشن کا عمل مکمل ہو چکا ہے کیا تمام سیاسی جماعتیں انتخابی اصلاحات کر کے انٹرا پارٹی الیکشن کا نظام اس طرز پر وضع کریں گی کہ جس میں پارٹی کا کوئی بھی رکن اپنی کارکردگی کی بنیاد پر ٹاپ پر پہنچ سکتا ہے‘کیا ارباب اقتدار اپنے بود و باش اور رہن سہن کو ملک کے عام آدمی کے رہن سہن کے طرز پر وضع کریں گے قوم ان کی کارکردگی کو بغور دیکھ رہی ہے ۔
سانحہ بشام کے بارے میں اب تک جو تحقیقات ہوئی ہیں ان سے اس بات کا عندیہ ملتا ہے کہ بمبار کا تعلق افغانستان سے تھا جو ہونا تھا وہ تو ہو چکا اب آ گے کی فکر کرنے کی ضرورت ہے اور اگر ایک طرف ملک کے اندر جو چینی باشندے سی پیک کے منصوبے پر کام کر رہے ہیں ان کی حفاظت کے واسطے فول پروف سکیورٹی کے انتظامات کی ضرورت ہے تو دوسری طرف پاک افغان بارڈر دنیا کی دیگر سرحدوں کی طرح ہونا چاہیے‘ قوم یہ جاننا چاہتی ھے کہ سابق وزیر داخلہ سرفراز بگٹی کے اس فیصلہ پر اب تک کیا عمل درآمد ہوا ہے جس میں کہا گیا تھا کہ آئندہ کوئی بھی افغانی پاکستان میں بغیر پاسپورٹ اور ویزا کے داخل نہیں ہو سکے گا‘ بہتر ہو گا اگر اس ضمن میں پارلیمنٹ کو حقائق سے آگاہ کیا جائے ۔فنانشل ٹائمز کا یہ انکشاف چشم کشا ہے کہ افغانستان میں دہشت گردوں کی محفوظ پنا ہ گاہیں ہیں ۔قرائن و شواہد یہ بتا رہے ہیں کہ امسال عید الفطر کا 10 اپریل کو ہونے کا امکان ہے اور یہ کہ تمام ملک میں عید ایک ہی دن منائی جائے گی ‘ریٹیلرز کو ٹیکس نیٹ میں لانے کے لئے تاجر دوست سکیم کا اجراءوقت کا تقاضا ہے ۔محکمہ موسمیات کی ملک بھر میں مزید بارشوں کی پیشنگوئی سے لگ یہ رہا کہ پہلے ہی سے امسال گزرنے والے طولانی موسم سرما کی معیاد شاید اور طویل ہو جائے اور یہ سلسلہ اپریل کے وسط تک کہیں نہ چلا جائے ۔ یہ خبر خوش آئند ہے کہ پاک چین خنجراب سرحد دوبارہ تجارت کے واسطے کھول دی گئی ہے جو چار ماہ سے بند تھی اس سے سیاحت کا بھی اب آ غاز ہو جائے گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔